عورت کو ہمہ گیر رول کے لیے تیار کرنا

ڈاکٹر شہناز بیگم

اسلام مکمل نظامِ زندگی کا نام ہے جس میں مرد و خواتین، بچے اور بوڑھے اور سماج کے سبھی گروہ اپنا اپنا رول ادا کرتے ہیں اور ان میں ہر ایک کا رول اہم اور اسلام کی نظر میں معلوم اور معروف ہے۔ اس نظام کی بڑی خوبی اعتدال، انصاف، باہمی تعاون، محبت و شفقت، احترام، ایثار اور حقوق و فرائض کا واضح تصور ہے۔ اس نظام کے قیام کا نتیجہ دنیا میں سکون اور ترقی کے ساتھ اخروی سرخ روئی ہے۔ آج کے پُرآشوب دور میں جہاں بے انصافی، انتہا پسندی، ظلم و جبر، حق تلفی اور بے راہ روی کا بول بالا ہے، ایک پرامن سماج کی تشکیل کی راہ ہموار کرنا انتہائی ضروری ہے تاکہ انسان کی زندگی بہتر ہوسکے اور وہ پرسکون فضا میں سانس لے سکے۔
سماج کو اسلام کی بتائی مذکورہ بنیادوں پر از سر نو تعمیر کرنے کے لیے مرد و عورت دونوں کا اشتراک و باہمی تعاون ضروری ہے۔ ایک معتدل، مائل بہ عروج اور خیر کی بنیاد پر استوار ہونے والے سماج کی بنیاد اس وقت تک نہیں پڑتی جب تک کہ اس میں عورتوں کے ہمہ گیر رول کو تسلیم کرتے ہوئے اسے حاصل نہ کیا جائے اور ان کا بھرپور تعاون نہ کیا جائے۔
اسلام نے حیاتِ زندگی کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں مرد و عورت کے صنفی رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ رہنما اصول مرتب کیے ہیں جن پر چل کر سماج میں ایک پاکیزہ اقدار پر مبنی ماحول بنایا جاسکتا ہے اور بے راہ روی اور اخلاقی بگاڑ کو روکا جاسکتا ہے۔
عام طور پر اسلام کے اصولوں پر یہ کہہ کر اعتراضات کیے جاتے ہیں کہ وہ مرد وعورت کو دو Water tight compartment میں بانٹ دیتا ہے اور دونوں صنفوں کے آزادانہ اختلاط کو پسند نہیںکرتا۔ جبکہ انہی اصولوں پر گہرائی سے نظر ڈالنے پر ہمیںاعتراف کرنا پڑتا ہے کہ ایک سنجیدہ قوم، جو کہ ترقی کے زینے طے کرنا چاہتی ہے، وہاں اس طرح کا ڈسپلن ضروری ہے کہ مردو عورت صحت مند ماحول میں تعمیری کام کرسکیں۔ عموماً مغرب کے تیار کردہ سماجی و معاشرتی ماحول میں دیکھا جاتا ہے کہ وہاں مرد وعورت کو غیر مقید اور غیر معقول اختلاط مردوزن کے ساتھ ہر ایک کو بھرپور مواقع حاصل ہیں۔ مگر انہی بے قید مواقع نے جو ہر قسم کی اخلاقی حدود سے آزاد ہیں، وہاں کے معاشرے پر خطرناک منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اخلاقی قدروں کے ساتھ مناسب دوری نہ رہنے کی وجہ سے اندرونی طور پر اس معاشرے میں مردو عورت کے اختلاط کا نتیجہ بہت صحت مند نہیں ہوا اور طرح طرح کی پیچیدگیوں نے جنم لیا ہے۔ ان سماجی و معاشرتی پیچیدگیوں پر اب خود مغرب کے سماج میں بھی بحث ہورہی ہے اور باقی دنیا بھی اس سے واقف ہونے لگی ہے۔
ہندوستان میں بھی آئے دن ایسے واقعات اخباروں اور دوسرے ذرائع سے سامنے آتے رہتے ہیں کہ خواتین کو ورک پلیس پر حراسانی کا سامنا کرنا پڑا یا پھر ان کوجنسی و جسمانی طور پر پریشان کیا گیا، یا ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، اور ان باتوں کی شکایت کی صورت میں انہیں اس کے اور زیادہ خراب نتائج دیکھنے کو ملے۔
یہ ایک ایسی صورت حال ہے جسے دنیا اگرچہ مثالی تسلیم کرتی ہے، اسے خواتین کی آزادی کا دور باور کرایا جاتا ہے اور حقیقت میں ہم بھی اس آزادی کو آزادی تسلیم کرتے ہیں، مگر اس سے حاصل ہونے والے نتائج پر حیرت اور افسوس ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس اسلام بھی عورت کو ایک ہمہ جہت سماجی و معاشرتی رول کے لیے تیار کرتا ہے مگر اس کا ماڈل مختلف ہے۔
اس کے اس ماڈل کی دو خوبیاں ہیں۔ پہلی خوبی یہ ہے کہ وہ شرم و حیا کی اخلاقی قید مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے لگاتا ہے۔ اس اخلاقی قید کا اثر اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کا ذہنی اخلاقی فریم یا نظریہ اس سے بالکل مختلف ہوجاتا ہے جو مغربی دنیا کے مردوخواتین کا ہوتا ہے۔
اس ماڈل کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ خواتین کو حجاب کی زینت سے آراستہ کرتا ہے۔ یہ حجاب اسے بری نگاہوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے، یہ گویا ایک دوہری ڈھال ہے جو اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر اس کی حفاظت کرتی ہے۔
اس ماڈل میں خواتین کے لیے سماجی و معاشرتی رول کے بھرپور مواقع ہیں مگر ساتھ ہی ان کے لیے تحفظ بھی ہے جو انہیں عزت و تکریم بھی فراہم کرتا ہے اور دوسرے معاشروں کی طرح کام کی جگہوں پر بے حیائی اور شرمندگی سے بھی محفوظ کرتا ہے۔
اوپر کہی گئی بات کی روشنی میں ہم یہ بات بلا جھجک کہہ سکتے ہیں کہ پردہ کے جہاں کئی اور مقاصد ہیں ان میں ایک اہم مقصدعورت کو ایک ہمہ گیر رول کے لیے تیار کرنا بھی ہے۔ جس معاشرے میں حقیقی روح کے ساتھ پردہ رائج ہوگا اس معاشرے کے مرد وخواتین مل کر سماج و معاشرے اور ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں بلا خوف و جھجک اپنا اپنا رول ادا کرسکیں گے۔ یہی بات ہمیں عہدِ رسالت میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔
اسلامی ممالک میں اگر حجاب کو بلا کسی افراط و تفریط کے لاگو کیا جائے اور خواتین کو ملک و معاشرے کی تعمیر و ترقی میں شریک کیا جائے تو اچھے نتائج حاصل ہوسکتے ہیں اور جہاں جہاں ایسا ہورہا ہے وہاں وہاں کی دنیا اس کے اچھے نتائج سے مستفید ہورہی ہے۔ ایسا اس وجہ سے ممکن ہوتا ہے کہ حجاب پاکبازی اور حیا کی علامت ہے۔ جہاں حیا اور پاکبازی ہوگی وہاں انسانی عزت و احترام کا پاس و لحاظ ہوگا اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات بالکل کم سے کم تر ہوجائیں گے۔ اسی کے ساتھ خواتین کو اپنی صلاحیتوں کے بھرپور مظاہرہ کا موقع ملے گا، ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں سے بھی دنیا فیض یاب ہوگی اور ان کی ہمہ گیر شخصیت کو بھی پھلنے پھولنے کے وسائل و مواقع دستیاب ہوں گے۔
ایسے سماج اور حالات میں خواتین کی فعالیت سے معاشرے کو تقویت ملنا یقینی ہوجاتا ہے، وہ نہ تو بلا وجہ اس خوف سے خود کو سماجی کاموں سے الگ رکھتی ہیں کہ اس آزادانہ میل جول سے وہ غیر محفوظ دائروں میں پھنس سکتی ہیں اور نہ ہی اس وجہ سے خود کو گھروں میں بند کرلیتی ہیں کہ باہر نکلنے پر انہیں لاز ماً خطرات پشیمانی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
عورتوں کو عزت و احترام کی گارنٹی دے کر انہیں تعمیری کاموں میں لگایا جائے تو ان کی چھپی ہوئی قابلیتوں اور صلاحیتوں سے سماج کو بھرپور فائدہ ہوسکتا ہے۔ بعض پروفیشن تو ایسے بھی ہیں جنھیں مردوں سے زیادہ بہتر عورتیں ہی انجام دے سکتی ہیں۔ وہ ساری صلاحیتیں، چاہے وہ زندگی کے کسی شعبے میں استعمال کی جانے والی ہوں، جہاں مردوں میںپائے جاتی ہیں وہیں عورتیں بھی ان سے فطری طور پر آراستہ ہیں۔ تعلیم و تربیت کے خاطرخواہ مواقع ملنے پر کسی کسی میدان میں تو خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر کرتی ہیں۔ آگے بڑھنے کے عمل میں عورت ہونے کی وجہ سے بے جا پابندیوں کے لگنے پر خواتین کی صلاحیتیں دب جاتی ہیں اور ان کا صحیح علم نہیں ہوتا۔ اس کے نتیجے میں جو ہمہ گیر رول خواتین سماج کی تشکیل میں مثبت طریقے سے ادا کرسکتی تھیں وہ نہیں ہوپاتا اور ہمارا اچھا خاصا ہیومن ریسورس سماج و معاشرے کو بھرپور فائدہ پہنچانے سے قاصر رہتا ہے۔
سماج کے جتنے بھی ڈپارٹمنٹ ہیں ان کو چلانے، ان کو صحیح خطوط پر steer کرنے، ان میں ترقی کے مواقع کھولنے اور ان کو اللہ کے بتائے ہوئے نقوش پر گامزن کرنے میں عورتوں کی شرکت اس کام کی رفتار کو بڑھاتی، اسے مکمل کرتی اور اس میں چار چاند لگادیتی ہے۔ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ صرف یہی نہیں کہ ’’وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ وجود زن کے بغیر کچھ بھی perfectionتک لانا ناممکن ہے۔ ہر شعبے میں عورتوں کی شمولیت اصلاً اس شعبے کو نئی زندگی دیتی ہے۔ خواتین کے اندر determination ، خود اعتمادی اور کام کی طرف ذوق و شوق، ان کی یکسوئی کو اور آگے بڑھاتا ہے۔
عورتوں کے اندر ہمت اور صبر بھی زیادہ ہوتا ہے۔ جدید اور قدیم تاریخ کے ہر دور میں ہمارے سامنے سیکڑوں، ہزاروں خواتین کی زریں مثالیں موجود ہیں جن کی بے لوث قربانیوں اور ان تھک محنت کا نتیجہ ہے کہ تہذیب آج ترقی کے منازل طے کرتی ہوئی یہاں تک پہنچی ہے۔ عورت ایک عورت ہی نہیں ایک بیوی ہے، ماں ہے، بہن ہے، بیٹی ہے او رہر رول میں وہ خوبصورت سے خوبصورت نظر آتی ہے۔ ہر رول میں وہ ایک مکمل شخصیت بن کر ہمارے سامنے آتی ہے اور ہر رول کو وہ بخوبی ادا کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر اس کو گھر سنبھالنے کی ذمہ داری ہے تو وہ بس اسی دائرے میں کچھ کرسکتی ہے۔ وہ ایک بہترین آرگنائزر، معلم، ڈائریکٹر، صلاح کار اور لیڈر کا رول بھی اسی تندہی سے ادا کرسکتی ہے جس طرح وہ ایک ماں اور بیٹی، بہن اور بیوی کا رول کرتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں بھی اس قسم کی بے شمار مثالیں ہمیں دیکھنے کو مل جائیں گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں