عورت کی اہم ترین معاشرتی ذمہ داری اپنے گھر والوں کو خدا کی نافرمانی سے بچانا

شمیمہ محسن

سورۃ التحریم میں ارشاد ہوتا ہے:

یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْآ اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَاراً وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَہُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَo (التحریم: ۶)

’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کواس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے جس پر تیز، تندخو اور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے جو کبھی اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم بھی انہیں دیا جاتا ہے اسے بجالاتے ہیں۔‘‘

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ایک شخص کی ذمہ داری صرف اپنی ذات ہی کو خدا کے عذاب سے بچانے کی کوشش تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کاکام یہ بھی ہے کہ نظام فطرت نے جس خاندان کی سربراہی کا بار اس پر ڈالا ہے اس کو بھی وہ حدِّ استطاعت تک ایسی تربیت دے جس سے وہ خدا کے پسندیدہ انسان بن سکیں اور اگر وہ جہنم کی راہ پر جارہے ہوں تو جہاں تک بھی ممکن ہو ان کو اس سے روکنے کی کوشش کرے اس کو صرف یہی فکر نہیں ہونی چاہیے کہ اس کے بال بچے دنیا میں خوش حال ہوں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اسے یہ فکر ہونی چاہیے کہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔

بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ’’تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ مرد اپنے گھر والوں کا راعی ہے اور وہ ان کے بارے میں جوابدہ ہے اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی راعی ہے وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘

اسلام نے عورت کو جو مقام عطا کیا ہے اس کے مطابق بحیثیت ماں، بحیثیت بیٹی اور بحیثیت بیوی یا بحیثیت مسلم خاتون اس پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا اس کا فرض اولین ہے۔

مسلمان ماں کا اولین فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کرے۔ مسلمان خواتین اگرچہ قرآن کریم کی تلاوت روزانہ صبح سویرے بڑے اخلاص اور عقیدت سے کرتی ہیں لیکن انھیں کچھ خبر نہیں ہوتی کہ جو کچھ وہ اپنی زبان سے ادا کررہی ہیں اس کے معنی کیا ہیں اور یہ کتاب عظیم ان کے لیے اپنے دامن میں زندگی کا کون سا پیغام رکھتی ہے۔ بے شمار مسلمان لڑکیاں، خصوصاً وہ جو جدید تعلیم سے بہرہ ور ہیں، زیادہ تر مذہب کی طرف میلان رکھتی ہیں، مگر اس طرح گویا اسلام محض ایک عظیم الشان مجرد فلسفہ ہے۔ وہ سنیما کی فحش فلمیں دیکھتیں ہیں اور ریڈیو پر گائے جانے والے بیہودہ اور بازاری گیت کچھ ایسے ذوق و شوق سے سنتی ہیں جیسے ان کے بغیر جذبات کی تسکین ممکن ہی نہیں۔وہ نوجوان لڑکیاں نیم عریاں چست لباس پہن کر مخلوط مجالس میں شریک ہوتی ہیں، انھیں یہ تک نہیں آتا کہ ان حیاسوز باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ برائی کو اگر برائی نہ سمجھا جائے تواس سے بچنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ مسلمان ماؤں کا فرض ہے کہ وہ اپنے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی رہنمائی کریں۔

مسلمان خواتین کو یہ ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ قرآن و حدیث کے مطالعہ کا مقصد یہ ہے کہ ان کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں نافذ کیا جائے۔ اس کا پہلا کام یہ ہے کہ اپنی زندگی کو اسلام کے سانچے میں ڈھالیں۔ اپنی زندگی کا جائزہ لیں اور بے لوث محاسبہ کرکے دیکھیں کہ اس میں جاہلیت کا تو کوئی اثر نہیںپایا جاتا۔ ایسے جو بھی اثرات ہیں ان سے اپنی زندگی کو پاک کریں اور اپنے خیالات کو، اپنی معاشرت کو، اپنے اخلاق کو اور اپنے پورے طرزِ عمل کو دین کے تابع کردیں۔

ان خواتین کا دوسرا کام یہ ہے کہ اپنے گھر کی فضا کو درست کریں۔ اس فضا میں پرانی جاہلیت کی جو رسمیں چلی آرہی ہیں ان کو بھی نکال باہر کریں۔ اور نئے زمانے کی جاہلیت کے جو اثرات انگریزی دور میں ہمارے گھروں میں داخل ہوگئے ہیں انھیں بھی خانہ بدر کردیں۔

تیسرا کام یہ ہے کہ اپنے بچوں کو اسلامی طرز پر تربیت دیں اور اس فکر میں لگ جائیں کہ گھروں کی معاشرت میں، روز مرہ کے رہن سہن میں اور زندگی کے مختلف معمولات میں اسلام نمودار ہو۔ اور وہ ہمارے بچوں کو آنکھوں کے سامنے چلتا پھرتا نظر آئے۔ بچے عبادت کا مدعا سمجھیں۔ اسلام کا نقش ان کے دلوں پر قائم ہو ان کی عادات درست ہوں، ان کے اندر اسلامی ذوق پیدا ہو۔ نئی نسل کے لیے یہ سب کچھ ہمیں درکار ہے وہ تمام عورتیں جو اسلام کا دم بھرتی ہیں انھیں چاہیے کہ اس فرض کو پورا کرنے کے لیے اپنی گودوں اور اپنے گھروں کو مسلمان بنائیں تاکہ ان میں ایک مسلمان نسل پروان چڑھ سکے۔

خواتین کا ایک کام یہ ہے کہ اپنے گھر کے مردوں پر اثر ڈالیں اور اپنے شوہروں، باپوں، بھائیوں اور بیٹوں کو اسلام کی زندگی کی طرف بلائیں۔ عورتوں کو یہ غلط فہمی نہ معلوم کہاں سے ہے کہ وہ مردوں کو متاثر نہیں کرسکتیں۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ عورتیں مردوں پر بہت گہرے اثرات ڈال سکتی ہیں۔ مسلمان لڑکی اگر یہ کہنے لگے کہ اسے محمد ﷺ اور حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کا اسوئہ حسنہ پسند ہے اور چرچلؔ اور ٹرومینؔ کی شکل پسند نہیں ہے تو آپ دیکھیں گی کہ کس طرح مسلمان نوجوانوں کی شکلیں بدلنی شروع ہوجائیں گی۔ مسلمان عورت اگر یہ کہے کہ اسے اسلامی زندگی مرغوب ہے جس میں نماز ہو، روزہ ہو، پرہیزگاری اور حسن اخلاق ہو، خدا کا خوف اور اسلامی تہذیب وآداب کا لحاظ ہو تو آپ کی آنکھوں کے سامنے مردوں کی زندگیاں بدلنے لگیں گی۔ مسلمان بیوی اگر صاف کہہ دے کہ اسے حرام کی کمائی سے سجائے ہوئے ڈرائنگ روم پسند نہیں ہیں۔ رشوت کے روپے سے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا گوارہ نہیں ہے بلکہ وہ حلال کی محدود کمائی میں روکھی سوکھی روٹی کھاکر جھونپڑے میں رہنا زیادہ عزیز رکھتی ہے، تو حرام خوری کے بہت سے اسباب ختم ہوجائیں گے اور کتنی ہی رائج الوقت خرابیوں کا ازالہ ہوجائے گا۔

اسی طرح اگر وہ تمام خواتین جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے دین تسلیم کرلیا ہے اصلاح احوال کی مہم شروع کردیں تو وہ اپنے اعزّہ و اقربا، اپنے خاندان کے لوگوں اور اپنے میل جول رکھنے والے گھرانوں کو بھی بہت سی خرابیوں سے بچاسکتی ہیں اور انھیں نئی اور پرانی جاہلیتوں سے پاک کرسکتی ہیں۔ چنانچہ ان کا فرض ہے کہ وہ بھلے طریقے سے اپنے عزیزوں اور ملنے جلنے والوں کے سامنے جاہلیت کے طریقوں کی خرابیاں اور برائیاں واضح کرتے ہوئے انھیں اسلام کے احکام سمجھائیں، ان کو اسلام کے حدود سے آگاہ کریں اور خود بھی اسلامی حدود کی پابندی کرکے اپنا صحیح نمونہ ان کے سامنے پیش کریں۔ یوں اگر کام کیا جائے تو ہماری سوسائٹی کا پورا ڈھانچہ درست ہوسکتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146