عورت کی تکریم و تحفظ

حنامقبول (بارہمولہ)

حجاب کے مقاصد پر اگر گفتگو ہو تو سب سے ابھر کر جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ عورت کو تحفظ حاصل ہوتاہے۔ تحفظ اور امن ،کرامت اور وقار کے بقا کا ذریعہ اور ا س کی ضمانت ہے۔

موجودہ دور اور اس کی تہذیب میں اگر ہم عورت کے مقام و مرتبے اور ا س کے عزت و وقار کی صورت حال کو دیکھیں، دنیا بھر میں خواتین کے خلاف بڑھتے جنسی جرائم کو دیکھیں یا گھر کے اندر کے عائلی نظام میں اس کی حیثیت اور حالات کو دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ وہ آزادی اور اختیار کے دور میں بھی کتنی مظلوم اور مجبور ہے۔ دنیا کو دیکھئے اور پھر اپنے ملک ہندوستان کو دیکھئے۔ نربھیا کو دیکھئے یا پھر کشمیر کی آصفہ کو دیکھئے، اناؤ کی بیٹی کو دیکھئے یا ہاتھرس کی مظلوم کو دیکھئے۔ یا پھر ملک کے تعلیمی اداروں یا سماج پر نظر ڈالیے۔ بہ غور دیکھنے سے حجاب کی منطق اور اس کا جواز اور اہمیت بہت ابھر کر سامنے آئے گی اور واضح ہوجائے گا کہ حجاب ہی حقیقت میں عورت کی تکریم اور تحفظ کا ضامن ہوسکتا ہے۔

حجاب ایک تہذیب اور ثقافت کا نمائندہ ہے۔ رائج تہذیب و ثقافت اس تہذیب کے برعکس ہے جو اسلام حجاب کی صورت میں انسانوں کے لیے تجویز کرتا ہے۔

اس کی ضرورت، اہمیت اور تفوق کا ادراک اب وہ لوگ بھی کرتے نظر آتے ہیں جو مذہبی یا تہذیبی اعتبار سے اس مذہب پر یقین نہیں رکھتے جو حجاب کا داعی و حامی ہے۔ چنانچہ مغرب سے لے کر مشرق تک کے دانشوران اب اس پر بحث کرتے نظر آتے ہیںکہ مغرب سے نمودار ہونے والی تہذیب نے عورت کو کیا دیا اور اسلام اسے کیا دے سکتا ہے۔ (اس کی تفصیل جاننے کے لیے معروف امریکی مفکر ہنری میکاؤ کا مضمون دیکھئے  بِکنی بمقابلہ برقع)

اسلام کے نظریہ حجاب کی بنیا دیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو مکرم بنایا ہے اور اسے اس تکریم اور وقار کی حفاظت کرنی ہے۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ حجاب کا نظریہ عورت کو تکریم اور تحفظ تو دیتا ہی ہے، وہ مرد کے وقار اور اسکی عزت و کرامت کا بھی محافظ ہے۔

ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے آدمؑ کی اولاد کو عزت بخشی اور خشکی اور دریا میں انہیں سوار کیا اور روزی دی،انہیں پاکیزہ چیزوں سے اور ہم نے انہیں بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی ہے۔‘‘ (سورہ بنی اسرائیل) لیکن انسان کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب جب انسانوں کو موقع ملا ہے؛ انہوں نے کمزور طبقات کا استحصال کیاہے۔ چونکہ معاشرہ میں عورت کمزورہے لہٰذا ہمیشہ استحصال کا شکار رہی ہے۔ یہ استحصال ہمیشہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے اور ان کی تاریخ اس پر گواہ ہیں۔

عورت کو مغرب کس طرح دیکھتا ہے اور نظریاتی طور پر وہ کیا سوچتا ہے؟ او راس تناظر میں حجاب کس طرح عورت کو تکریم و تحفظ فراہم کرتا ہے، اس کے لیے کناڈا کی نومسلم خاتون کیتھرائن بُلاک کا مشاہدہ پڑھئے۔ وہ اپنی کتاب (جس کے ایک باب کی تلخیص ہم نے اس شمارے میں ’’حجاب بہ حیثیت متبادل نظریہ‘‘ کے عنوان سے شائع کی ہے) میں لکھتی ہیں:

’’دنیا کو ایک نمائش کی حیثیت سے دیکھنے کے جس جدید تجربے کے متعلق مجھے وضاحت کرنی ہے، وہ یہ ہے کہ اس میں دیکھنے کو ترجیح دی گئی ہے۔ 1851 کے موسم گرما میں عظیم نمائش کے موقع پر ’دی ٹائمز‘ نے لکھا تھا کہ ’’اب ہم معروضیت (حقیقت) پسند لوگ ہیں، ہم تمام چیزوں کو، جہاں تک اپنے ہاتھ پہنچ سکتے ہیں، شیشے کے شوکیسوں میں رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ انہیں جی بھر کر گھور سکیں۔‘‘

مغرب کا یہی گھورنے کا نظریہ جسے وہ حقیقت پسندی (Ojbectivity) کا نام دیتا ہے عورت کے ساتھ بھی ہے۔ چنانچہ وہاں، اور وہاں کیا اب تو ہر جگہ عورت کے جسم کو مختصر لباس کے ساتھ کار کے کسی حصے پر ہاتھ پھیرتے دکھایا جاتا ہے۔ فروخت کی جانے والی اشیاء کے ڈبوں پر ایک خوبصورت اور نیم عریاں عورت کی تصویر ہوتی ہے، حالانکہ ان دونوں چیزوں کا تعلق کسی بھی طرح جنسی خواہش سے نہیں ہے۔ یہاں حجاب کی منطق سامنے آتی اور اس کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں ہم سمجھ سکتے ہیں کہ حجاب کس طرح عورت کو تکریم و تحفظ فراہم کرتا ہے۔

مغرب کو حجاب سے چڑ کیوں ہے؟ یہ بھی سوال اہم ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر خوبصورت چیز کو گھورنے کی سوچ رکھنے والا’ حقیقت پسند‘ یوروپی مرد جب دیکھتا ہے کہ ایک عورت حجاب میں ہے اور وہ اس کو دیکھ نہیں سکتا مگر وہ اسے دیکھ سکتی ہے تو اسے الجھن ہوتی ہے اور یہی بات ہے جس نے حجاب اور حجاب مخالف سوچ کے درمیان تہذیبی کشمکش پیدا کی ہے۔ اس تناظر میں ممتاز عالم دین عمار خاں ناصر لکھتے ہیں : “عورت کے لیے بطور عورت تکریم کو معاشرتی قدر بنانے پر محنت کی ضرورت ہے۔ اسی لیے ہمیں اصرار ہے کہ “آزادی” کا مغربی فلسفہ اور ’جسم‘ اور’ مرضی‘ جیسے سلوگن ہمارے سیاق میں مددگار نہیں، بلکہ الٹا نتیجہ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کا پیغام اور تاثیر عورت کی تکریم نہیں جو ایک اخلاقی احساس ہے۔ ان کا پیغام ایک طرف انفرادیت کے نفسی احساس اور صنفین کے مابین بے گانگی اور منافرت کو فروغ دینا ہے، دوسری طرف نسوانی جسم کو جنس بازار بنانے میں سرمایہ دارانہ منڈی کو سہولت فراہم کرنا ہے، تاکہ اس کی خرید وفروخت کرنے والے کسی اخلاقی ججمنٹ کا موضوع نہ بنائے جا سکیں اور “آزادی” کی قدر کے تحت ان کو قانونی اور سماجی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ تکریم کو معاشرتی قدر بنانا انسانوں کے باہمی تعلق کو ایک اخلاقی اصول پر استوار کرنا اور سماج میں محاسبے کا ایک خودکار میکنزم تشکیل دینا ہے۔ آزادی کو نقطہ حوالہ بنانا اس کے برعکس صنفین میں ایک بے گانگی اور کشمکش پیدا کرنا ہے جس میں تحفظ کی بنیادی ضمانت ریاست کا ڈنڈا ہے۔ جہاں ریاست یہ تحفظ مہیا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو، وہاں عدم تحفظ کے مظاہر پر صرف لعن طعن ہو سکتا ہے یا کچھ قوانین بنوا کر حصول طاقت کا نفسیاتی احساس پیدا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن دونوں طریقے نتیجے میں غیر موثر رہتے ہیں اور صرف فرسٹریشن کو بڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ‘‘

حال ہی میں جدید دور کے ایک نمایاں عالم نعمان علی خان صاحب نے ایک تجربہ (Research Experiment) کیا اس تجربہ میں انہوں نے اسکولوں ، کالجوں اور جامعات (Universities) میں زیر تعلیم طالبات سے ایک مشترکہ سوال پوچھا کہ ایک ایسی چیز لکھو جو تمہیں سب سے زیادہ پسند ہے۔ اس تجربہ نے حیرت کن نتائج یہ سامنے آئے کہ 99 فیصد لڑکوں نے لکھا تھا کہ ”عورت“ ہمارے دل کو سب سے زیادہ بھاتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ رب العزت جو کہ خالق و مالک کائنات ہے بخوبی علم رکھتا ہے کہ مرد کی نفسیات کیا ہے اور مرد کی اسی نفسیات کو سمجھتے ہوئے خالقِ کائنات نے اسے حجاب سے تحفظ فراہم کیا ہے۔

انسان کی فطری خواہشات دوطرح کی ہیں؛ ایک محدود ، جیسے کھانے اور سونے کی خواہشات. ان کی جب تکمیل ہوجاتی ہے تو اس سے انسان رغبت ختم ہوجاتی ہے۔ دوسری خواہشات وہ ہیں جو غیر محدود ہوتی ہیں۔ مثلاً مال کی خواہش یا جنسی میلان ان سے طبیعت کبھی آسودہ نہیں ہوتی۔ جنسی میلان کے بھی دو پہلو ہے۔ ایک جسمانی اور ایک روحانی ۔ جسمانی تسکین تو بسا اوقات ہوجاتی ہے لیکن روحانی آسودگی کبھی نہیں ہوتی بلکہ مسلسل ”ھل من مزید“ کا تقاضا رہتا ہے۔ مردوزن کے آزادانہ اختلاط کی صورت میں خواہشات میں سکون اور ٹھہراؤ آنے کے بجائے انہیں ہوا ملے گی اور معاشرے میں بے حیائی اور آوارگی کو فروغ ملے گا جو اسلام کسی بھی صورت نہیں دیکھنا چاہتا اور اس کے نہ صرف دروازے بلکہ چور دروازے بھی بند کرتا ہے۔

اگر ہم اپنی تجوریاں کھلی چھوڑ دیں اور حفاظت کے تمام تدابیر ختم کریں اور کھلی چھوٹ دے دیں کہ جو چاہیں جتنا مال اٹھانا چاہے، اُٹھالیں۔ کیا اس سے جُرم کی خواہش ابھرے گی یا کم ہوگی؟

پردے کے احکام قرآن مجید کی چوبیسویں (24) سورہ( نور) اور تنتیسویں (33) سورہ (احزاب) میں تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ ان احکام کی غرض و غایت خود قرآن جو بتاتا ہے وہ ’’فلایوذین‘‘ یعنی ان کو ستایا نہ جائے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسلام حجاب کا جو حکم دیتا ہے اس کا مقصد اس ایذاء سے تحفظ فراہم کرنا ہے جو اجنبی مردوں سے گھر سے باہر کسی بھی صورت میں پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ اس بات کو ہم دنیا بھر میں واقع ہونے والے جنسی جرائم کے تناظر میں اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔

مرد کو اللہ نے جسمانی قوت عطا کی ہے اور عورت کو رب نے جسمانی خوبصورتی سے نوازا ہے لیکن ساتھ ہی یہ مطالبہ کیا ہے کہ معاشرے میں ایک توازن برقرار رکھنے کیلئے وہ ہر ایک کے سامنے اپنے حسن کا بے جا اظہار نہ کرتی پھرے۔ اگر وہ رب العزت کی حدود و قیود کی پاسداری کرتی ہے تو اسے اس دنیا میں بھی عزت و سکون حاصل ہوگا اور آخرت میں بھی بے شمار ثمرات حاصل ہوںگے۔

دوسری طرف موجودہ ترقی یافتہ مغرب کی اور دیکھا جائے تو وہاں کی تصویر کا یہ رخ سامنے آتا ہے کہ بے لگام آزادی اور آزادانہ اختلاطِ مرد وزن کے نتیجے میں جو معاشرہ پروان چڑھا ہے، اس کے نتائج اس معاشرہ کو کن کن شکلوں میں دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ بغیر ماں باپ کے بچے، بے شمار بیماریاں جیسے ایڈز، نفسیاتی امراض اور آبادی کا گرتا تناسب پورے مغرب کو پریشان کیے ہوئے ہے۔ اسی کی وجہ سے خاندان کا اِدارہ ہی میں متزلزل ہو کر زمین بوس ہوچکا ہے اور شادی کا بندھن ڈھیلا پڑجانے، بلکہ شادی کے بغیر جنسی تعلقات عام ہوجانے کا براہ راست اثر عورت پر پڑا ہے۔ مردوں کو ان ذمہ داریوں سے نجات مل گئی جو شادی کے نتیجے میں ان پر عائد ہوتی تھیں اور عورتوں کے سردوہری ذمہ داریاں آگئیں۔ انہیں وہ بوجھ تو اٹھانا ہی تھا جو فطرت نے ان کے ذمے کیا ہے۔ اور جس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہوسکتا. بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی پرورش کی ذمہ داری بھی تنِ تنہا ان پر آگئی اور وہ کسی دوسرے کے تعاون سے محروم ہوگئیں۔ ان گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان پر اپنی اور اپنے بچوں کی کفالت کیلئے گھر سے نکلنا اور معاشی جدوجہد کرنا لازم ٹھہرا ۔ متعدد دوسری رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ اس صورت حال نے عورتوں کے جسموں ، ذہنوں اور نفسیات پر گہرا اثر ڈالا ہے اور ان میں امراض اور اموات کے تناسب میں اضافہ کیا ہے۔ بن بیاہی ماؤں سے پیدا ہونے والی نسل کی مناسب پرورش اور تربیت کا مسئلہ اس پر مستزاد ہے۔

دوسری طرف تسکینِنفس کے لئے نسوانی جسم کو جدیدیت کے نام پر جنس کے بازار میں استحصال کا شکار بنادیا گیا ہے۔ خاتونِ مغرب کو اس بات کا ادراک ہوچکا ہے اس لئے وہاں نو مسلم (Reverted Muslim) ہونے والے افراد میں 70 فیصد خواتین کی ہے۔ اور ان کو جو چیز سب سے زیادہ پُرکشش نظر آتی ہے وہ مسلم عورت کا حجاب ہے جو آج پوری دنیا میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں