شخصیت کا درخت جو بڑکی طرح پھیلاؤ رکھتا ہے اس کی جڑیں بہرحال ذہن میں ہوتی ہیں … یا کہہ لو روح میں! کہنا چاہیے کہ ہماری شخصیت ہمارے ذہن کا انعکاس یاروح کا مظاہرہ ہے۔ ہمارا ظاہر ہمارے باطن سے بنتا ہے۔ باطن خوبصورت اور کشش دار ہو تو ظاہر بھی حسن سے مالا مالا ہوتا ہے اور مقناطیسیت سے بہر مند۔ باطن اگر کریہ اور گھناؤنا ہو تو ظاہر کی نظر فریبیاں جلد ہی بے اثر ہوجاتی ہیں۔ بس تمہارے لیے ضروری ہے کہ اپنے ذہن، قلب اور اپنی روح کو حسین و آراستہ بناؤ۔ یہ سمجھ لو کہ اصل چیز تو تمہاری روح ہی ہے، بدن محض اس کی قیام گاہ ہے اس کے رہنے سہنے کا مکان، اس کی حسن پاشیوں کے لیے ایک جلوہ گاہ، مکین اگر عالی مقام ہو تو کچے مکان بلکہ جھونپڑے کو بھی چار چاند لگ جاتے ہیں۔ لیکن اگر مکین سے کراہت آتی ہو تو کسی شیش محل میں بھی اسے رکھا جائے گا تو اس محل کی خوبصورتی بھی پامال ہوجائے گی۔ پس سب سے پہلے اس بات کی فکر کرو کہ تمہارا ذہن اور تمہاری روح حسین ہو۔ باطن کا یہ حسن پھر خود بخود تمہاری خارجی زندگی کے ہر ہر گوشے کو منور کرسکے گا۔
اس اصولی حقیقت کے ساتھ یہاں ایک خاص بات یہ کہنے کی ہے کہ کچھ انسانوں میں … اور تھوڑی عورتوں میں عام انفرادی شخصیت کے ساتھ ان کی ذہنی شخصیت پائی جاتی ہے۔ عام لوگوں میں یہ محض ایک چھوٹے سے جزو کی حیثیت رکھتی ہے مگر خاص خاص افراد میں یہ جزو، جزو اعظم بن جاتا ہے۔ ایسا بالعموم اچھی تعلیم اور وسیع مطالعہ رکھنے والے طبقوں ہی میں ہوتا ہے۔ بات کو یوں سمجھو کہ ذہانت ہر کسی میں ہوتی ہے لیکن خاص خاص لوگوں میں عام سطح سے زیادہ ذہانت پائی جاتی ہے، ان میں حسن کا یہ غیر مرئی رنگ جھلکے تو اس کی نسائی جاذبیت کی طاقت بہت بڑھ جاتی ہے۔ اچھی تعلیم، وسیع مطالعہ، ادبی ذوق، فنون لطیفہ (اخلاقی حدود کی پابندی کے ساتھ) کی رمز شناسی، نفسیات انسانی کاشعور! ذوق شعرو ادب، مہارت حسن کلام جن خال خال عورتوں میں کار فرما ہو ان کی نسائیت کو اعلی درجہ کا ایک پیرائیہ اظہار مل جاتا ہے۔ ایسی عورتیں زندگی کی حقیقتوں کو زیادہ آسانی سے سمجھتی ہیں، نکتہ شناس اور نکتہ آفریں ہوتی ہیں، اپنے احساسات کو خوبی سے نمایاں کرسکتی ہیں، ازدواج کے تقاضوں کو زیادہ موثر طریق سے پورا کرتی ہیں اور بسا اوقات نسائیت کی ان کو انفرادی شخصیت میں معراج مل جاتی ہے … بشرطیکہ ذہانت یا حسن کا کبریا کوئی دوسرا بڑا سبب فساد ان کے کردار میں خلل نہ ڈالے۔ وہ عورت جو اور ساری باتوں میں کامیاب ہو لیکن وہ شوہر کی روح کی گفتگو کو سن اور سمجھ نہ سکے اور اپنی روح کو اس سے ہم کلام نہ کرسکے، جسے اپنے اور ساتھی کے حسیات اور جذبات کے اتار چڑھاؤ کا پورا پورا شعور نہ ہو، جو قدرتی مناظر، مجلسی دلچسپیوں، نفسیانی نیرنگیوں، ادب اور فنون کی لطافتوں سے بہرہ اندوز ہونے میں شوہر کی ذہنی رفاقت نہ کرسکے وہ ایک بڑی کوتاہی اپنے اندر رکھتی ہے۔ اس کی ذہنی شخصیت نہیں ہے۔
مثال میں ہم ایک بار پھر علامہ اسد اور ان کی رفیقۂ حیات ایلسا کی ازدواجی محبت کو لیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ:’’وہ میری زندگی کی تمناؤں کو سمجھنے کے معاملہ میں اس درجہ ذکی الحس واقع ہوئی تھی کہ اس کی وجہ سے خود میری آرزوئیں جگمگا اٹھیں۔‘‘
یہی زندگی کی تمناؤں کو سمجھنا عورت کی ذہنی شخصیت کا کمال ہے اور یہ کمال اتنا موثر ہے کہ اسد کے لیے اپنی اور ایلسا کی عمروں کا تفاوت کوئی قابل توجہ چیز نہ تھا: ’’ایلسا نے اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا: لیکن تم مجھ سے شادی چاہتے ہو، ابھی تمہاری عمر چھبیس سال کی بھی نہیں ہے اور میں چالیس سے زیادہ کی ہوں اس بات کو پیش نظر رکھو کہ جب تمہاری عمر تیس سال کی ہوگی تو میری عمر پینتالیس سال کی ہوجائے گی اور جب تمہاری عمر چالیس سال کی ہوگی تو اس وقت میں بوڑھی ہوچکی ہوں گی۔ میں نے ہنس کر کہا اس سے کیا ہوتا ہے، میں تمہارے بغیر اپنے مستقبل کا تصور بھی نہیں کرسکتا‘‘ اور علامہ اسد کا تاثر یہ تھا کہ : ’’مجھے اس میں جو خوبصورتی اور اس کی فطرت میں جو حسن نظر آرہا تھا اس نے ایلسا کو میرے لیے اس درجہ دلکش بنادیا تھا کہ میں اس کے علاوہ کسی دوسری عورت کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی دیکھ نہیں سکتا‘‘
یہ ہے ذہنی شخصیت کا وہ حسن جو بدنی حسن کو چار چاند لگادیتا ہے اور اگر بدنی حسن میں کچھ کمی ہو تو اس کی تلافی کردیتا ہے۔ زوجین کے دلی ربط کی معراج یہی ہے کہ وہ کسی اور جانب آنکھ اٹھاکر دیکھنے سے بھی بے نیاز ہوجائیں۔ ’’مجھے تمہاری ضرورت ہے‘‘ کا اصل مفہوم یہی ہے۔
حسن و خوبی
تمہیں اس قابل ہونا چاہیے کہ حسن و خوبی کو ہر پیرائے میں، خصوصاً نازک پیرایوں میں پہچان سکو … مثلاً خیال کی خوبصورتی کو جانو (یہ مقام مردوں میں سے بھی کم کو نصیب ہوتا ہے، خواتین بچاری تو بہت پیچھے ہیں) … اور یہ سمجھ لو کہ خیال کی خوبصورتی ادب سے لے کر فرنیچر کے ڈیزائن تک ہر جگہ بکھری ہوئی ہے اور تمدن کا سارا ایوان اس سے جگمگارہا ہے۔ انسانی خیال کی روح کو اشیاء اور فنی عجائبات سے علاحدہ کرکے دیکھنے کی استعداد پیدا کرو اور پھر اس کی قدر کرنے اور اس کی داد دینے کی قابلیت اپنے اندر ابھارو۔ خصوصاً تمہارے شوہر، خاندان کے افراد اور تمہاری سہیلیوں کے حلقے میں جب کبھی انسانی خیال اور انسانی جذبے اور انسانی کردار کا حسن اپنی جھلک دکھائے تو تم اسے پاسکو اور اس پر پوری طرح تحسین کرسکو۔ ذہنی شخصیت کو پروان چڑھانے کے لیے یہ قدم اول بھی ہے اور شاید منزل آخر بھی۔ اپنے دور، طبقے ، حلقے اور خاندان کے ذہنی معیار کو اچھی طرح سمجھ لو اور پھر کسی حال میں اس سے نیچے نہ رہو۔ ناول، افسانے، نظمیں اور خطوط (بشرطیکہ وہ پاکیزہ اور سنجیدہ اور معیاری ہوں) تفریح ہی کا سامان نہیں ہیں بلکہ قابلیت بڑھانے کے ساتھ ہمارا سرمایۂ ادب ہمیں مروجہ ذہنی معیارات اور مجلسی آداب اور ازدواجی دلچسپیوں اور صنفی کشش کے اچھے اچھے وسائل سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ اچھی چیزوں کو پڑھ کر جہاں ان سے دوسرے اعلیٰ مفاد حاصل کرو، وہاں اپنی نسائی شخصیت کی تعمیر کے لیے مسالہ بھی ان سے تلاش کرو۔ ادبیات کے آئینہ میں دیکھو کہ کیسی نسائی شخصیتیں ازدواج کے مراحل میں کامیاب ثابت ہوتی ہیں اور ان کی کون سی کمزوریاں ان کے لیے رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ اپنے دور کے معیارات کو سمجھ کر اندازہ کرو کہ تمہارے شوہر کی مانگ ذہنی لحاظ سے کیا کیا ہوگی۔
خبر دار ! تم مسلم خاتون ہو!
لیکن یہ کبھی نہ بھولو کہ تم ایک مسلم خاتون ہو اور تم مروجہ معیارات کو جوں کا توں اختیار کرنے کے بجائے ان میں سے بہتر کا انتخاب کرو اور برے عناصر کو مسترد کردو۔ مثلا انداز بے باکی جدید عورتوں کی ذہنی اور نسائی شخصیت کا ایک اہم عنصر ہوتا ہے اور جاذبیت بھی خاصی دکھاتا ہے، مگر دوسری طرف عین اس کے بالمقابل خود حیا میں بھی ایک حسن لطیف ہے اور وہ بھی خاصا من موہنا ثابت ہوتاہے۔ عجیب سی بات ہے کہ دو متضاد رنگ ہیں اور دونوں ہی نسائیت کو موثر بنا دیتے ہیں۔ اب دونوں میں سے کسی ایک کو پسند کرنے کا سوال ہے۔ تم اگر اپنی فطرت سے پوچھو اور اسلام سے رہنمائی لو تو ان دونوں کی متفقہ رہنمائی حیا کی طرف ہوگی۔ انداز بے باکی کا کمال اگر دیکھنا ہو تو طوائفوں اور ایکٹریسوں اور فرنگیت مآب طبقوں میں ملے گا۔ یاد رکھو کہ شوخی اور بے باکی اور ’’پٹاخہ پن‘‘ کے شعبدے چار دن اچھے لگتے ہیں، مگر پھر ان سے طبیعت اکتانے لگتی ہے۔ یہ راہ ایسی نہیں کہ تم جیسی شریف مسلمان عورت اس طرف جائے۔ مغربی تمدن نے عورت کی فطرت کو اگر مسخ کردیا ہے تو کیا ضرور کہ تم اس کے پیچھے جاؤ۔ اس مثال سے یہ وضاحت مطلوب تھی کہ مروجہ معیارات کو چھانٹ پرکھ کے لینا ہے، اندھادھند نہیں!
یہ بات ایک بار پھر سمجھ لو کہ ذہنی شخصیت … اگرچہ عورتوں میں شاذ و نادر پائی جاتی ہے … مگر یہ بڑا موثر جادو ہے اور زنانہ حسن کی یہ ایک ایسی فائق ترین قسم ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے چہرے اور جلد کے حسن کی کمی بھی نسائیت کو کمزور نہیں ہونے دیتی۔‘‘