گزشتہ دنوں ملک میں اس بات پر شدید بحث کا سلسلہ شروع ہوگیا کہ کیرلا کے سبری مالا مندر میں خواتین کو پوجا کی اجازت کیوں نہیں ہے۔ یہ معاملہ اس وقت میڈیا میں آیا جب خواتین کی حمایت میں وکیلوں کے ایک گروپ نے معاملہ عدالت میں اٹھایا۔ اور عدالت نے کہا کہ ’’خواتین کے مندر میں داخلے پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔‘‘ مندر کے چیف پجاری گوپال کرشنن کے اس بیان نے کہ دس سال سے پچاس سال کے درمیان کی عمر والی خواتین کیوں کہ خاص دنوں میں ناپاک (IMPURE) ہوتی ہیں اس لیے انہیں مندر میں داخلے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ گزشتہ نومبر میں مذکورہ پجاری نے یہ کہہ کر بڑا تنازعہ کھڑا کر دیا تھا کہ ’’خواتین مندر میں اسی وقت داخل ہوسکتی ہیں جب کوئی ایسی مشین ایجاد ہو جائے جو انسانی جسم کو اسکین کر کے یہ متعین کر دے کہ داخل ہونے والی عورت مکمل طور پر ’’پاک‘‘ ہے۔ جب کہ سپریم کورٹ کا خیال ہے کہ مذہب کی بنیاد پر تو داخلہ روکا جاسکتا ہے مگر جنس کی بنیاد پر مندر میں عورتوں کا داخلہ روکنا درست نہیں ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ مذکورہ مندر میں صدیوں سے یہ روایت چلی آرہی ہے کہ خواتین کو داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے پیچھے جو وجہ بتائی جاتی ہے وہ خواتین کی ناپاکی ہے اور ایک دوسری وجہ جو ریاستی حکومت کی جانب سے بتائی گئی ہے یہ ہے کہ مندر میں براجمان ’’بھگوان اَیپا‘‘ کا مندر نوٹیفائڈ جنگل علاقے میں پہاڑوں کے اوپر ہے اور ’’بھگوان ایپا‘‘ برہم چاری تھے اور عورتوں سے دور رہنے والے تھے۔
اسی طرح کا دوسرا واقعہ احمد نگر مہاراشٹر کے ایک مندر میں ہوا جہاں ایک خاتون نے احتجاجاً داخل ہوکر اپنی پوجا انجام دی۔ خاتون کے اس عمل کے بعد لوگوں نے تطہیر (Purefication) کی رسم انجام دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خواتین اور خواتین نواز تنظیموں کی جانب سے شدید احتجاج شروع ہوگیا۔ میڈیا میں مساوات مرد و زن اور عورتوں کے سماجی ومذہبی حقوق پر بحث شروع ہوگئی۔ جس کا خاص پہلو یہ تھا کہ مذہبی لوگ عورت کی ناپاکی کو بنیاد بنا کر اس کے داخلے کے خلاف تھے جب کہ دوسرا طبقہ مرد و عورت کے درمیان برابری اور اس کے مذہبی حق کا حوالہ دے کر اس بات پر ہنوز بہ ضد ہے کہ خواتین کو تمام عبادت گاہوں میں داخلہ کی غیر مشروط اجازت ملنی چاہیے۔ جب کہ سپریم کورٹ نے عدالت کی ایک حالیہ کارروائی میں حکومت اور مذہبی طبقہ سے یہ سوال کیا ہے کہ ’’کیا خواتین روحانیت کے حصول کے لیے نااہل ہیں‘‘ جو ہندوستانی سماج کے لیے کافی اہم ہے۔
مذکورہ تنازعے میں دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب اس میں اسلام اور مسلمانوں کو بھی گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہوئے ممبئی کی معروف درگاہ ’’حاجی علی‘‘ میں بھی خواتین کے داخلے کی اجازت کا معاملہ اٹھایا گیا۔ کچھ گروہوں نے مذکورہ درگاہ میں بھی خواتین کے داخلے پر پابندی کو ختم کرنے کی مانگ کی۔ اس طرح دونوں مذاہب کو اس تنازعے میں داخل کرلیا گیا جو محض سیاسی وجوہات کے سبب تھا۔
حاجی علی درگاہ میں خواتین کے داخلے کی ممانعت کی کیا حکمت ہے یہ تو درگاہ کی انتظامیہ ہی بتا سکتی ہے البتہ اتنا طے ہے کہ اس ممانعت کی وجہ دینی احکام کی بنیاد پر نہیں ہوسکتی کیوں کہ اسلام مرد و خواتین دونوں کو اپنی آخرت بنانے اور اللہ سے قریب ہونے کی یکساں تلقین بھی کرتا ہے اور ذمہ دار بھی بناتا ہے۔ البتہ درگاہوں پر جانا اور منتیں مانگنا نہ مردوں کے لیے درست ہے اور نہ عورتوں کے لیے۔ اسلام زیارت قبور کا حکم دیتا ہے کہ لوگ موت کو یاد کریں، مُردوں کے لیے دعائے خیر کریں اور اپنی زندگی کو اللہ کے احکام سے قریب کریں۔ یہ بات احادیث سے ثابت ہے کہ یہاںجنس کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ اسلام خواتین سے ان کے مخصوص ایام میں فرض عبادات کے احکام ساقط کر دیتا ہے اور اس کی وجہ ظاہر ہے۔
لیکن اسلام کاحکم یہ ہے کہ وہ جیسے ہی ان ایام سے پاک ہوں وہ فوراً فرائض و دیگر عبادات کی مکلف ہوجاتی ہیں۔ یہاں یہ بات بالکل واضح ہے کہ اسلام میں عورت کا مخصوص ایام میں بھی ناپاک ہونے کا وہ تصور نہیں جس تصور کو مندر میں داخلے کے لیے بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ یہ تصور عورت کو مستقل ناپاک مخلوق مانتے ہوئے اس کے مذہبی اختیارات اور حقوق کو معطل کرنے کاسبب ہے۔ اس کے برخلاف اسلا کی عظمت یہ ہے کہ اس نے ان ایام کے سبب محض متعین مدت کے لیے فرض عبادات کو اس سے ساقط کیا ہے مگر عبادت گاہوں میں داخلے پر پابندی جیسے امور کو یکسر غلط قرار دیا ہے۔
بے شمار واقعات اور احادیث ہیں جو اس سلسلے میں دین کے مزاج کو واضح کرتی ہیں۔ حضرت میمونہؓ زوجۂ رسولؐ نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’ہم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی ایام میں خدمت کیا کرتے تھے۔ آپؐ ہماری گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھا کرتے، اسی حالت میں ہم مصلّٰی اٹھا کر مسجد میں رکھ آتے تھے۔‘‘
دوسرا واقعہ دیکھئے اور اسلام کا مزاج سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ حج کے دوران حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایام شروع ہوگئے۔ انہوںنے نبیؐ سے بتایا تو آپ نے فرمایا تم سواری پر سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرو، پھر انہوں نے طواف کیا۔ اس وقت نبیؐ خانہ کعبہ کے پہلو میں نماز پڑھ رہے تھے اور سورہ طور کی تلاوت فرما رہے تھے۔
یہ اور اس قسم کے واقعات مسلم عورت کو یہ سمجھنے اور سمجھانے کے لیے کافی ہیں کہ اسلام عورت کو اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے دیگر مذاہب دیکھتے ہیں بلکہ ان کے برخلاف اسے ایک ایسے فرد کی حیثیت سے دیکھتا ہے، جس کی اپنی ذاتی حیثیت ہے اور وہ دین ہی نہیں بلکہ دنیا کے دیگر تمام معاملات میں اپنی مستقل شناخت رکھتی اور پوری آزادی و مساوات سے فیض یاب ہوتی ہے۔
ان دونوں واقعات نے ہندو سماج میں عورت کی حیثیت اور اس کی مذہبی آزادی کی بحث چھیڑ دی اور پورا مذہبی سماج ملک کے لوگوں کو مندر میں داخلے پر پابندی کی منطق سمجھانے میں ناکام رہا۔ اس واقعے کا منفی اثر یہ بھی ہوا اور ہوگا کہ لوگ مذہب کو سنجیدہ معاملے کے طور پر لینے کے روادار نہ ہوں گے۔ جب کہ مذہب انسانی زندگی کا اہم مسئلہ ہے۔ اسی قسم کی غیر منطقی اور غیر منصفانہ چیزوں نے لوگوں کے دل و دماغ سے مذہب کا احترام کم کیا ہے۔ کیوں کہ مذہب یہاں دھرم گروؤں کے مطابق ہے۔ جب کہ اسلام کا معاملہ مختلف ہے اور یہاں ہر چیز خدا اور رسول کے ذریعہ دی گئی ہے اسی لیے اس میں کسی غیر منطقی تقسیم کا امکان نہیں ہے۔
یہ مناسب موقع ہے کہ مسلم خواتین آگے آکر عام خواتین کے سامنے اسلام کی حقیقی پوزیشن ان کے سامنے واضح کریں اور بتائیں کہ اسلام نے عورت کی عظمت و کرامت کو کس طرح محفوظ اور محترم بنایا ہے۔lll