بناؤ سنگھار خواتین کی فطرت اور ان کا صنفی حق ہے لیکن موجودہ زمانے میں بے خدا تہذیب نے بناؤ سنگھار کے معاملات کو مسلمانوں کے لیے آزمائش بنا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے وفاداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس سلسلے میں اس کی ہدایت کو دیکھا جائے اور اس کی حد کو پار کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
یہ بات واضح ہے کہ عورت کو انسانی زندگی میں بہت اہم مقام حاصل ہے۔ کائنات کا سارا حسن عورت ہی کے دم قدم سے ہے اور اسلام نے عورت کو سب سے پہلے اس کی وجود اس کی حیثیت اور مرتبے کا احساس دلایا ہے یہ عورت پر اسلام کا احسان ہے۔
زیبائش اور سنگھار عورت کا بنیادی اور فطری حق ہے جو کہ بعض حالات میں اس پر واجب بھی ہو جاتا ہے بہرحال بننا سنورنا میک اب کرنا عورت کی فطرت کے عین مطابق ہے لیکن موجودہ زمانے میں نت نئے فیشن اور مقابلہ حسن کی دوڑ نے عورت کو بناؤ سنگھار کے معاملے میں حدود سے آگے نکال دیا ہے۔ اسلام عورت کے بناؤ سنگھار کا قطعی مخالف نہیں ہے لیکن وہ عورت کو شو پیس بننے یا بنانے سے روکتا ہے اور یہ قید لگاتا ہے کہ اس کا بناؤ سنگھار دنیا کو دکھانے اور شو پیس بننے کے بجائے صرف ایک ہی مرد کے لیے ہو اور اس بناؤ سنگھار کو اس کے محارم ہی دیکھ سکیں اور وہ بھی مکمل آداب کے ساتھ دیکھیں۔
عورت کا بناؤ سنگھار اگر خواتین کے سامنے ہو،نامحرم مردوں سے بچ رہی ہو تب بھی دکھاوے اور ریاکاری کے عنصر سے خالی نہیں ہوتا بہرحال ہم چند اصولی باتیں ذکر کردیتے ہیں، جس سے بنیاد سمجھنے میں آسانی ہوگی۔
۱- نا محرموں سے سامنا یا ان پر گزر نہ ہو۔
۲- فضول خرچی نہ ہو اور ضرورت سے زائد یا اس کے بغیر نہ ہو۔
۳- دکھاوے، ریاکاری یا دوسری ہم عصر اور رشتہ دار خواتین کے مقابلے کے لیے نہ ہو۔
۴- شرعی حدود اور دائرے میں ہو۔
چناں چہ حدیث شریف میں خوشبو لگا کر راستے سے گزرنے والی عورت کو بدکار عورت کے مشابہ مانا گیا ہے۔ کیوں کہ خوشبو لگاکر راستے میں گزرنے کا لازمی نتیجہ لوگوں کی توجہ ہے اور بدکار عورتیں اسی مقصد سے خوشبو لگاتی ہیں لہٰذا شریف، باحیاء، مومنہ کو اس سے منع کر دیا گیا ہے کہ وہ بدکار عورتوں جیسا کوئی کام کرے۔ حدیث شریف ملاحظہ ہو:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ ’’جو عورت خوشبو لگا کر باہر نکلے اور اس کا گزر لوگوں کے پاس سے ہو اور وہ اس کی خوشبو محسوس کرلیں تو یہ عورت بدکار عورت (کی طرح) ہوگی۔‘‘ (مسند احمد:۴/۴۱۴)
اسی طرح فضول خرچی کے بارے میں احادیث طیبہ میں بے شمار وعیدیں آئی ہیں اور اس سے بڑھ کر قرآن کریم کا واضح ارشاد ہے کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اور فضول خرچی کرنے کے دنیاوی نقصانات اس دور میں کس شخص کے سامنے نہیں؟ آج کل جب کہ اشیائے خورد و نوش خریدنا دسترس سے باہر ہوتا جا رہا ہے وہاں میک اب اور نت نئے ڈیزائن کے مہنگے ترین لباس خریدنے کو کس طرح قرین عقل کہا جاسکتا ہے۔
اسی طرح اس بارے میں زیادہ لکھنا بھی عبث ہے کہ عورت کو یہ یاد دلا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر پردہ کرنا واجب ہے اور پردے میں جسمانی ساخت، ابھار اور زینت کی سب سے اہم جگہ اور مقام چہرے کا داخل ہونا اب کسی دلیل کا محتاج نہیں۔
قرآن کریم کی سورہ النور میں خواتین کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے اپنی زینت نامحرم مردوں کے سامنے کھولنے سے منع کیا گیا ہے اور ساری دنیا کے تمام مرد اور عورتیں اس بات پر متفق ہیں کہ عورت کی زینت، زیبائش، سنگھار، ناز و انداز کا اصلی مرکز صرف اور صرف ’’چہرہ‘‘ ہے۔
اگر کوئی خاتون عورت یا لڑکی یہ جواب دے کہ مردوں کو چاہیے کہ وہ عورت کا احترام کرتے ہوئے نظریں نیچی رکھیں تو ان کے لیے وہ حدیث پیش کرنا تسلی کا سبب ہوگا کہ جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جو عورت مردوں کی نظر اٹھنے کا سبب بنے اس پر مرد کا گناہ اور فرشتوں کی لعنت (دوسری حدیث کے بموجب) ہوتی ہے۔
مذکورہ اعمال سے بچتے ہوئے شرعی حدود و قیود کا خیال کرتے ہوئے اگر بناؤ سنگھار کیا جائے تو نہ صرف جائز بلکہ مستحسن ہے۔ چناں چہ اس سلسلہ میں درج ذیل باتیں خواتین کو پیش نظر رکھنی چاہئیں:
شوہر کے لیے بناؤ سنگھار
عورت اپنے شوہر کے لیے سکون کا مرکز ہوتی ہے۔ مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ جب وہ تھکا ہارا گھر پہنچے تو اس کا استقبال اور خدمت اچھے اور مسکراہٹ بھرے چہرے کے ساتھ ہو جس کی طرف وہ دیکھے تو اس کی صفائی ستھرائی، حسن اخلاق کی وجہ سے اور دل سے اس کی قدر کرنے والی شخصیت کو دیکھ کر اس کی ساری تھکن دور ہوجائے اور اسے زندگی کا حسن محسوس ہونے لگے۔ اسی طرح حدیث میں اشارہ کیا گیا ہے کہ بہترین بیوی وہ ہے کہ جس کی طرف شوہر نظر اٹھا کر دیکھے تو اس کو خوشی محسوس ہو۔
رسول اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق دنیا کی بھلائی ’’نیک عورت‘‘ (بیوی) ہے۔ چناں چہ عورت کو اپنی بساط کے مطابق صفائی ستھرائی، حلیے کی درستگی رکھنی چاہیے اور خود کو شوہر کے لیے پرکشش اور دلکش بنا کر رکھنا چاہیے۔ یہ ازدواجی زندگی کا بھی تقاضہ ہے اور عورت کی فطرت کے عین مطابق بھی۔
یہ نہ ہو کہ شوہر جب گھر آئے تو پسینے کی بو سے مزین بگڑے الجھے بالوں والی روتی صورت شکووں کے ساتھ اس کا استقبال کرے۔ اس لیے عورت کی صفائی ستھرائی حلیہ کی درستگی ہلکا پھلکا تزین و زینت، یہی اس کا بناؤ سنگھار ہے جو اس کے لیے کرنا ضروری ہے۔
دیکھئے رسول کریمﷺ کی حکمت کہ آپ نے مرد کو سفر سے واپسی کے موقع پر ہدایت دی کہ وہ سیدھا گھر نہ جائے بلکہ اپنا سامان وغیرہ گھر بھجوادے اور اطلاد ینے کے بعد دو رکعت نماز مسجد میں پڑھ کر پھر گھر جائے تاکہ اس کی بیوی صفائی ستھرائی اور بناؤ سنگھار کرلے تاکہ شوہر کی نظر کسی بھوتنی پر پڑنے کی بجائے اپنی بیوی پر پڑے جو اس کی زندگی کا حصہ اور حسن ہے۔ اس ہدایت کی اہمیت اس تناظر میں دیکھیں جب لوگ پیدل یا اونٹوں پر طویل سفر کرکے اور مہینوں میں واپس آتے تھے اور آج کی طرح موبائل اور فون کے ذریعہ پیغام رسانی نہیں تھی۔
شادی شدہ عورت کا میلی کچیلی رہنا مکروہ ہے
ایک شادی شدہ عورت کی گھریلو ذمہ داریاں یقینا اسے بہت زیادہ مصروف رکھتی ہیں اس لیے اس کی خود پر توجہ کم ہوجاتی ہے لیکن عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے گھر میں کام کاج سے فارغ ہوکر صاف ستھری رہے خصوصاً جس وقت شوہر گھر میں آجائے تو اس وقت اسے وضو کرلینا چاہیے تاکہ شوہر کے سامنے آئے تو اسے دیکھ کر شوہر کو ناگواری یا الجھن محسوس نہ ہو۔ یہ یاد رہے کہ اس طرح برے حلیے میں شوہر کے سامنے آنے سے شوہر کے دل میں ناگواری بیٹھ سکتی ہے لہٰذا عورت کا شوہر کے سامنے میلی کچیلی رہنا مکروہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہر وقت بناؤ سنگھار میں لگی رہے اور گھر کا کام تلپٹ چھوڑ دے۔
جسم کی بدبو شوہر کی ناگواری کا باعث ہے
دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جسے دوسرے شخص کے جسم کی بدبو بھلی لگتی ہو اس لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ گھر کے کام کاج کا لباس بالکل الگ رکھا کریں اور کام کاج سے فارغ ہوکر صاف ستھری ہوکر دوسرا لباس پہن لیں تاکہ بدن سے پسینہ کی بدبو نہ آئے یہ شوہر کے لیے ایذا اور ناگواری کا باعث بنتی ہے اور شوہر کی توجہ دوسری طرف ہونے لگتی ہے لہٰذا شوہر کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ عورت اپنے کپڑوں اور جسم کی بدبو دور کرکے شوہر کے قریب آئے۔
عورت کا گھر اور چار دیواری میں رہنا شوہر کے اعتماد اور پسندیدگی میں اضافہ کرتا ہے:
بارہا یہ دیکھا گیا ہے کہ کچھ عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں محلے کے گھروں میں آتی جاتی رہتی ہیں یا بازار کے چکر لگاتی رہتی ہیں اور اچانک شوہر گھر پہنچے تو پتہ چلتا ہے کہ محترمہ گھر پر نہیں اور وہ گھر سے کوئی چیز لینے آیا ہے تو محترمہ کو ہی اس کا پتہ معلوم ہے۔ لہٰذا اس طرح دل میں ناپسندیدگی کے جذبات آتے ہیں اور جو عورت بلا وجہ بازاروں اور محلے کے گھروں میں گھومتی رہتی ہے آہستہ آہستہ شوہر کی محبت اور اعتماد کھو دیتی ہے اور مرد بھی دوسری عورتوں کی طرف توجہ کرنے لگتا ہے (العیاذ باللہ) اس لیے عورت کو بلا ضرورت گھر سے باہر نکلنا اور محلے کے گھروں میں آنا جانا نہیں چاہیے اور محلے کے گھروں میں بے مقصد آنے جانے سے محلے کی عورتوں کے دلوں سے بھی وقعت کم ہوجاتی ہے جو ایک صالح مومن عورت کے وقار اور شخصیت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے… اور غیر محرم مردوں کی نظر پڑنے اور ان سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے لہٰذا اس سے گریز کرنا ضروری ہے۔ یہ واضح رہے کہ عورت کا امن و سکون گھر کی چار دیواری میں ہے اور اسی میں رہنا شوہر کی محبت اور اعتماد میں اضافہ کرتا ہے۔lll