عورت کے تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب

شمشاد حسین فلاحی

ایک تعلیم یافتہ، باشعور اور باحکمت عورت سماج کی بنیادی ضرورت ہے اور اسلام نے یہ صفات عورت کے اندر پیدا کی ہیں اور وہ اسے ان صفات سے آراستہ دیکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ جب ہم قرآن، اللہ کے رسولﷺ کی ہدایات اور عہدِ صحابہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ عہدِ اول کی خواتین ان بنیادی اوصاف سے متصف تھیں بلکہ علم و فضل، دعوت و تحریک اور جہادِ زندگی میں پیش پیش رہیں۔ اسلامی شریعت جس مزاج کو پیدا کرنا چاہتی ہے اور جو حکمت و دانائی ان کے اندر دیکھنا چاہتی ہے وہ ان کے اندر خاطر خواہ پیدا ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کی خواتین نہ تو اپنے گھر اور خاندان کو چلانے میں کوتاہی کی مرتکب ہوئیں اور نہ ہی کارِ دعوت و جہاد میں بھی پیچھے رہیں، یہاں تک کہ سماجی خدمت اور امورِ سلطنت و انتظام میں بھی ان کا عمل دخل رہا اور وہ معاشرے کے فعال اور ذمہ دار فرد کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتی رہیں۔ ہمارے خیال میں اس کا راز یہ ہے کہ اس عہد کی خواتین نے ایک طرف تو شریعتِ اسلامی کے اس مزاج کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا جو اسلام پیداکرنا چاہتا ہے، دوسری طرف وہ اپنے علم، شعور اور حکمت کی بنیاد پر اپنی آزادی کو استعمال کرنے اور شرعی حدود کی حفاظت کرنے کی اہل ہوگئی تھیں۔

موجودہ زمانے میں جب ہم خواتین کو دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر تسلیم کی جائے گی کہ اس عہد میں ان کے درمیان روایتی تعلیم کا ناقابلِ تصور عروج ہوا ہے اور انھوں نے اس میدان میں بڑے بڑے کارنامے انجام دے کر اپنا لوہا منوایا ہے اور منوارہی ہیں۔ یہ صورت حال مشرق و مغرب اور عرب و عجم تقریباً ہر جگہ تھوڑے بہت تفاوت کے ساتھ موجود ہے۔ اسی طرح اس میں مسلم سماج اور دیگرمذہبی اکائیاں بھی یکساں طور پر شامل ہیں۔ موجودہ زمانے کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اس عہد میں تعلیم یافتہ خواتین کے درمیان آزادی کی تحریک بھی پوری قوت کے ساتھ چل رہی ہے اور اس تحریک کا زور اتنا زیادہ ہے کہ ہر جگہ عورت کے تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہے آزادی پسند عورت اور اس آزادی کا مطلب کیا ہے، اس سے قارئین بھی واقف ہیں اور سماج بھی۔

بدقسمتی سے اس آزادی کے مختلف پہلوؤں میں یہ بھی شامل ہے کہ اب عورت بچوں کی تعلیم و تربیت کی اہم ذمہ داری اور سماج کے بنیادی یونٹ ’’گھر‘‘ کی دیکھ بھال کو پابندی یا اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرنے لگی ہے اور آزادی کا مطلب یہ ہوگیا ہے کہ جس طرح گھر سے نکلنے، اپنی سماجی ذمہ داریاں انجام دینے اور روزی روٹی کمانے اور کاروبار کے لیے مرد آزاد ہے، اسی طرح عورت کو بھی آزاد اور خود مختار ہونا چاہیے۔ سماج میں مرد اور عورت برابر ہیں اس کا مطلب یہ تصور کیا جارہا ہے کہ جس طرح مرد کماتے ہیں اور نوکریاں کرتے ہیں عورت بھی کمائے اور نوکری کرے۔ عملی طور پر اس کا مظاہرہ ہورہا ہے کہ عورت بھی اب وہ تمام کام کرکے ہی دم لے گی جو مرد کرتے ہیں۔ آج کی عورت وہ تمام کام انجام دینے پر’’ اتارو‘‘ ہوگئی جو کسی زمانے میں صرف مردوں کی ذمہ داری ہوا کرتے تھے۔ مگر فطری طور پر اسے ان کاموں سے تو نجات نہ مل سکی جو صرف عورت ہی کا حصہ ہیں اور اللہ نے فطری طور پر انھیں اس کے سپرد کیا ہے اور مرد اسے انجام دے ہی نہیں سکتا۔ اس طرح عورت نے فطری ذمہ داری کے ساتھ، جس سے اسے کسی صورت فرار حاصل نہیں، دیگر ذمہ داریوں کو ’’اوڑھ‘‘ کر اپنے اوپر دوگنا بلکہ کئی گنا بوجھ ڈال لیا یا جدید تہذیب نے اس پر ڈال دیا اور یہ سب آزادی اور مساوات مرد و زن کے نام پر ہوا۔

آپ تصور کریں کہ مرد تو وہ ذمہ داری نہیں اٹھاتا جو عورت ہر حال میں اٹھانے کے لیے فطری طور پر مجبور ہے مگر عورت اس فطری ذمہ داری کے ساتھ دیگر ذمہ داریاں اٹھا رہی ہے۔ کیا یہ دوہرا ظلم نہیں اور یہ کہ وہ اس پر کیوں نہیں سوچتی؟ یہ بنیادی بات ہے جس پر ہمارے عہد کی تعلیم یافتہ خواتین کو غور کرنا چاہیے۔ خاص طور پر مسلم خواتین کو۔

موجودہ زمانے میں تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ہے ڈگری یافتہ ہونا اور ڈگری یافتہ خاتون ہونے کا لازمی مطلب لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ نوکری کرے گی اور پیسہ کما کر گھر لائے گی جس سے خوشحالی بھی حاصل ہوگی اور معیارِ زندگی بھی بلند ہوگا۔

یہ سوچ دراصل مادہ پرستی، عیش پسندی اور خود غرضی پر مبنی ہے۔ اس کے برعکس اگر متوازن، انسانیت پسند اور عورت کے عزت و احترام پر مبنی سوچ ہو تو اس سے تعلیم یافتہ عورت کے بلند تر مقاصد کا تصور ابھرتا ہے۔ اور وہ تصور ہے کہ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور عورت اپنی ذات سے کہیں زیادہ سماج اور معاشرے کو فائدہ پہنچانے اور اسے نوازنے کی اہل ہوتی ہے۔ اوراگر سماجی، عائلی اور انفرادی حالات کو دیکھتے ہوئے منصوبہ بندی کی جائے اور غوروفکر کیا جائے تو اس کی بے شمار اور مختلف النوع شکلیں سامنے آسکتی ہیں مگر ان شکلوں کی تلاش اور سماج و معاشرے کو فائدہ پہچانے کے راستے صرف انہی کو نظر آسکتے ہیں، جو خود غرضی سے نکل کر باوقارانداز میں سوچتے ہوں۔

آج ہمارے ملک میں جہاں کئی مذہبی اکائیاں مختلف النوع حالات میں زندگی گزارہی ہیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ تعلیم یافتہ خواتین کا ایک مضبوط گروہ کھڑا ہو جو عام انسانوں، سماج اور خاص طور پر خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرے۔ اس پوری بحث کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسیتعلیم یافتہ خواتین کی نوکریوں پر جائز و ناجائز کا فتویٰ تصور کیا جائے، بلکہ اس سے مقصود یہ ہے کہ ہماری تعلیم یافتہ خواتین کو اپنی زندگی کی ترجیحات متعین کرنے میں توازن و اعتدال، عزت ووقار، سماجی و معاشرتی حالات، زمانے اور وقت کے تقاضے، دین اور امت کی ضروریات اور خود اپنی ذات، خاندان اور گھر کا مکمل لحاظ رکھنا چاہیے اور یہی وہ بات تھی جو عہدِ اول کی خواتین نے اچھی طرح سمجھ لی تھی۔ اور جب انھوں نے اپنی ترجیحات اورتقاضوں کو اچھی طرح سمجھ اور متعین کرلیا تونہ انھیں میدانِ جہاد میں جانے میں ہچکچاہٹ ہوئی،نہ دست کاری اورتجارت میں وہ پیچھے رہیں اور نہ کارِ دعوت و سماجی خدمت کو انھوں نے نظرانداز کیا۔ انھوں نے وہ سب کچھ کیا جو آج کی عورتیں بھی کرنے سے قاصر ہیں مگر توازن کے ساتھ، بغیر اپنی ذات پر اضافی بوجھ ڈالے اور بغیر اس کے کہ سماج میںمساوات کے نام پر مردوں اور عورتوں کے درمیان کشمکش پر مبنی کوئی تحریک چلے۔

اُس دور کی خاص خوبی یہ بھی تھی کہ اس میں مرد وخواتین ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلتے تھے مگر اس مقام تک پہنچنے کے لیے انھیں مردوں کی مخالفت میں کوئی تحریک چلانے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور نہ ہی انھیں اپنے حقوق کے لیے کسی جنگ کا سہارا لینا پڑا۔ بغیر کشمکش اور تحریک کے ہی انھیں وہ وقار اور احترام حاصل ہوگیا جس کی مثال شاید تاریخ پیش نہیں کرسکتی۔

اصل بات یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے پاس عورت کے سلسلہ میں جو نظریہ ہے وہ ہی بنیادی طور پر درست نہیں ہے۔ کہیں تو اسے ذلیل، حقیر، فتنہ اور جانوروں سے بدتر تصور کیا جاتا ہے، اور اس کے مظاہر خود ہمارے ہندوستانی سماج میں قدم قدم پر نظر آتے ہیں، اور کہیں اسے محض لہو و لعب اورعیش پرستی کا آلہ کار بنادیا گیا ہے۔ جیسا کہ مغربی سماج میں ہے۔ رہے وہ لوگ جو عورت کے سلسلہ میں ایک باوقار اور مثالی تصور رکھتے ہیں تو وہ ابھی تک ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں، جس سے ان کے دعوؤں کی حقیقت لوگوں پر آشکارا ہوسکے۔

یہ مثال مسلم سماج کی تعلیم یافتہ اور اسلام پسند خواتین اگرچاہیں تو پیش کرسکتی ہیں مگر اس کے لیے ایک طرف تو اسلام کے اس بنیادی مزاج کا فہم حاصل کرنا ہوگا جو وہ اپنے سماج کے افراد کے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف عملی جدوجہد کے ذریعے اس بات کی مثال پیش کرنی ہوگی کہ اسلام اور مسلم معاشرہ میں عورتوں کے لیے نہ تو کسی تحریک آزادی کی ضرورت ہے اور نہ مساوات مرد و زن کے نعروں کی۔ اس لیے کہ یہاں پہلے ہی سے خواتین کے لیے مثالی آزادی اور آئیڈیل مساوات کا تصور موجود ہے۔

شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146