عورت کے تعلیم یافتہ ہونے کے معانی

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

ادیب اور مفکر جان ملٹن نے تعلیم کی تعریف یوں کی ہے:

’’میرے نزدیک مکمل اور شریفانہ تعلیم وہ ہے جو انسان کو بحالت جنگ و امن اپنی اجتماعی و نجی زندگی کے فرائض ، دیانت و مہارت اور عظمت کے ساتھ ادا کرنے کو تیار کرتی ہے‘‘۔

تعلیم فرائض کا احساس اور اس کی بہتر تکمیل کا ہنر سکھاتی ہے۔وہ انسان کو اس کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے تئیں ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہے اور ایک بامقصد زندگی کے حصول کو ممکن بناتی ہے۔

وسیع تر مفہوم میں یہ ان تمام طبیعی و حیاتیاتی، اخلاقی و سماجی اثرات کا احاطہ کرتی ہے جو فرد اور قوم کے طرز زندگی کی تشکیل کرتے ہیں اور محدود مفہوم میں یہ صرف ان اثرات پر حاوی ہے جو اساتذہ کے ذریعے سے اسکولوں، کالجوں اور دوسرے درس گاہوں میں مرتب ہوتے ہیں۔

تعلیم وہ مسلسل عمل ہے جس کے ذریعے انسان کی اخلاقی، ذہنی اور جسمانی نشوونما ہوتی ہے۔ انسان اپنے عقائد و تصورات اور تہذیب و ثقافت سے جڑا رہتا ہے۔ یہ وہ ہمہ گیر عمل ہے جس کا اثر انسان کی زندگی کے تمام پہلوئوں پر ہوتا ہے۔ ایک قوم کی زندگی کا انحصار ہی اس کی تعلیم پر ہے۔

جہاں تک اسلام میں تعلیم کی اہمیت کی بات ہے تو اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کی نازل ہونے والی اس پہلی آیت میں پڑھنے کا حکم دیا گیا اور علم کا اللہکے ایک بڑے احسان کے طور پر ذکرکیا گیا۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیداکیا۔ جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے جس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا، انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہیںتھا‘‘۔ (سورہ علق: ۱تا ۵)

ان آیات کے متعلق فی ظلال القرآن کے مترجم نے کچھ اس طرح اپنی حیرت کا اظہار کیا ہے:

’’یہ ایک حیرت انگیز امر ہے کہ اولین وحی میں نہ توحید کا صراحتاً ذکر ہے اور نہ آخرت کا، بلکہ سارا زور پڑھنے پڑھانے، علم سیکھنے، سکھانے، قلم کے ذریعہ تعلیم دینے اور خدا کے سرچشمہ علم ہونے پر ہے۔ اور علم ہی کو تخلیق کے بعد خدا کی عظیم نعمت کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔‘‘

قرآن اپنے مخاطبین سے بار بار عقل و خرد اور فہم و تدبر کے استعمال کا مطالبہ کرتا ہے۔ وہ کورانہ تقلید کا قائل نہیں ہے بلکہ افلا تعقلون، افلا یتدبرون اور اولم یتفکرون اس کی دعوت کا جز ہے۔

پھر قرآن خود نبی اکرمؐ کا تعارف ایک معلم کی حیثیت سے کراتا ہے جس کا مقصد علم و حکمت کی تعلیم دینا ہے اور لوگوں کو گمراہیوں سے بچانا ہے۔ اس نبی اکرمؐ کی بعثت کو مومنوں کے لیے بہت نعمت کا باعث بتایا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

’’اور اﷲ تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا ا حسان کیا ہے کہ ان میں انہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا جو انھیں خدا کی آیات پڑھ کر سناتا اور ان کا تزکیہ کرتا اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا۔‘‘ (سورہ آل عمران: ۱۶۴)

قرآن کریم کے ساتھ ساتھ احادیث نبویؐ میں بھی طلب علم اور علماء کو نہایت ہی بلند مرتبہ عطا کیا گیا ہے۔ذیل کی احادیث دیکھئے۔

’’جو شخص علم کی تلاش میں نکلے وہ واپسی تک اﷲ تعالیٰ کے راستے میں ہوتا ہے‘‘۔

حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اﷲؐ نے فرمایا:

’’جو شخص علم کی تلاش میں سفر اختیار کرے اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا ہے۔‘‘

’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔‘‘

’’ابوہریرہؓ کہتے ہیں فرمایا رسول اﷲؐ نے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے (عمل کے ثواب) کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے۔ مگر تین کاموں کا ثواب برابر جاری رہتا ہے۔ ان میں سے ایک علم بھی ہے جس سے نفع حاصل کیا جائے۔‘‘

’’انسؓ کہتے ہیں فرمایا رسول اﷲؐ نے کہ جو شخص علم کو حاصل کرنے کے لیے (گھر سے) نکلے وہ اس وقت تک جب تک کہ (گھر) واپس نہ آجائے خدا کی راہ میں ہے۔‘‘

ان تمام احادیث میں علم کو دین اور دنیا کے درمیان تقسیم نہیں کیا گیا ہے۔

عورت کی تعلیم: اہمیت و ضرورت

عورت کے لئے تعلیم کی اہمیت اس لئے اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ اس کی ہی گود میں نسل انسانی پرورش پاتی ہے۔ بچوں کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت میں عورتوں کا کردار زیادہ نمایاں ہوتا ہے کیونکہ بچہ اس سے زیادہ مانوس ہوتا ہے۔ پھر باپ اپنی بیرونی ذمہ داریوں اور مشغولیتوں کی وجہ سے بچوں کی تعلیم پر زیادہ وقت نہیں دے پاتا ہے، ایسے میں عورت کا تعلیم یافتہ نہ ہونا صرف اسی کا نقصان نہیں ہے بلکہ اس کی تعلیم پر آنے والی نسل اور قوم کی تعلیم بھی منحصر ہے۔ چنانچہ عورت کی تعلیم و تربیت ناگزیر ہے۔

عہدِ رسالت میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا کس قدر اہتمام کیا گیا اور وہ اس میدان میں کس قدر آگے بڑھ گئیں اور انھوںنے اپنے زمانے میں علمی میدان کے ساتھ ساتھ سماج، معاشرے اور دنیا کو بدلنے میں کتنا اہم رول ادا کیا یہ تاریخ پڑھنے سے واضح ہوجاتا ہے اور ہمیں یقینا اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔

موجودہ ز مانے میں جو علمی ترقی اور جمہوری قدروں کا زمانہ ہے اور دنیا بھر میں تمام ہی معاشروں کی خواتین سیاسی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور علم و تحقیق کے میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر ایک ہمہ گیر رول ادا کررہی ہیں، مسلم خواتین کی تعلیم وتربیت اور ان کے فکری ارتقاءاور نشوونما کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ ہم اپنی نصف آبادی کو علم و فکر کے میدان میں بلند درجے پر پہنچائیں اور انہیں زندگی میں ہمہ گیر رول کے لیے تیار کریں۔

عورت کے تعلیم یافتہ ہونے کے معانی

تاریخ اسلام کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس دور میں اگرچہ ڈگریوں کا رواج نہ تھا، مگر خواتین علم دین، صنعت و حرفت، طب و صحت، فن سپہ گیری اور تجارت و معیشت کے میدان میں بھی معروف تھیں۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ ان کے نزدیک تعلیم شعور و آگہی کی بیداری، اپنے رب کو پہچاننے ، اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہونے اور انہیں انجام دینے کی صلاحیت کو پروان چڑھانے اور معاشرے کا ایک ذمہ دار اور کارآمد فردبننے کا نام تھا اور ان کی تمام کوششیں اسی لئے تھیں۔

ماں کی گود ہی پہلی درسگاہ ہوتی ہے یہاں سے بچہ بنیادی تعلیمات کو حاصل کرتا ہے جو اس کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ تعلیم یافتہ عورت بچوں کی تربیت، ان کے متعلق فیصلہ لینے اور باہری دنیا کے مطابق ان کے اخلاق و کردار کو بنانے اور سنوارنے میں ز یادہ مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ ان کے کیریر کے انتخاب، دوستوں کے انتخاب، کتابوں کے انتخاب میں غیر تعلیم یافتہ ماں کے بہ نسبت زیادہ بہتر ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ عورتوں کو بھی مردوں کی طرح تعلیم کے حصول کے پورے حقوق حاصل ہونے چاہیے۔مرد کی تعلیم ایک شخص کی تعلیم ہے اور عورت کی تعلیم ایک نسل کی تعلیم ہے۔ فرانس کے مشہور بادشاہ نپولین کا کہنا ہے ’’ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا۔‘‘

تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب ڈگری یافتہ ہونا ہرگز نہیں ہے ۔ تعلیم شعور اور احساس کی بیداری کا نام ہے۔ شعور وہ علم ہے جو بنا رسمی تعلیم کے بھی حاصل ہوتا ہےاور بھاری بھرکم ڈگریاں رکھنے کے باوجود حاصل نہیں بھی ہوسکتا۔

بنیادی طور پر تعلیم تین مقاصد کے لئے حاصل کی جاتی ہے۔ کسب معاش، فلاح معاد یعنی آخرت کی کامیابی اور خالص روحانی مقصد کے لئے اور خدمت خلق کے لئے۔ اسلام کی نظر میں تعلیم کا اصل مقصد روحانی ترقی اور خدمت خلق ہے۔ کسب معاش تعلیم کا نتیجہ تو ہوسکتا ہے مگر اصل مقصود نہیں ہے ۔ جب کہ موجودہ دور میں تعلیم کو صرف معاشی استحکام اور آسائش زندگی کے حصول کے لئے حاصل کیا جاتا ہے جس کا نہایت ہی منفی اثر افراد اور معاشرے پر پڑ رہا ہے۔

اسی نقطہ نظر کا نتیجہ ہے کہ استاد اور شاگرد کے درمیان روحانی رشتہ ختم ہوگیا۔ اب استاد کو نصاب کی فکر ہے نہ کہ طالب علم کے اخلاق و کردار کی تعمیر کا خیال جو اسے اچھا انسان بھی بنا سکے۔ ایسی صورت میں تعلیم کا میدان صنعت اور کاروبار بن گیا اور تعلیمی ادارے کارخانے۔ تعلیم سے پیسہ کمانا اور پیسہ دے کر تعلیم حاصل کرنا نظریہ ہے تو کہاں کا اخلاق اور کیسا کردار۔ اب تو صرف پیسہ کمانے کی مشینیں تیار ہورہی ہیں جنھیں نہ اخلاقیات کی فکر ہے اور نہ حلال وحرام کاخیال۔

تعلیم یافتہ ہونے کا مطلب یہ سمجھا گیا ہے کہ انسان بہت سی اسناد یا ڈگریوں کا مالک ہوحالانکہ تعلیم کا مفہوم بہت وسیع ہے اس میں اپنے وجود کا شعور اور ذمہ داریوں کی صحیح ادائیگی بھی شامل ہے۔اس طرح اگر دیکھا جائے تو انسان کی زندگی سے جڑے ہر پہلو کا تعلق تعلیم سے ہے۔

عورت کے تعلیم یافتہ ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ بہت سے ڈگریوں کی مالک ہو یا کہیں جاب کرتی ہو بلکہ اگر کسی عورت کو اپنے وجود کا اور ذمہ داریوں کا احساس ہو، وہ اپنے گھریلو ذمہ داریوں کی بہتر ادائیگی سے واقف ہو، گھر میں عزت و احترام کی فضا قائم کررکھی ہو، رشتوں میں توازن رکھا ہو، بڑے چھوٹوں کے حقوق سے واقف ہو، ، بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اس کا مقصود ہو، سماج و معاشرے کی برائیاں اسے بے چین رکھتی ہوں اور وہ اس کی اصلاح کے لئے سرگرم ہو، اس کا خاندان اور رشتے اس کی پہلی ترجیح ہوں تو یقیناً وہ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ میں شمار ہو گی چاہے بھلے ہی اس کے پاس بڑی ڈگری نہ ہو۔ وہ یقینا ان بہت سی نام نہاد بڑی بڑی ڈگری یافتہ اور اعلیٰ عہدے پر فائز عورتوں سے بہتر ہو گی جن کا خاندان اور گھر بکھرا ہوا ہے ۔ جن کی اولاد اخلاقیات سے بے بہرہ ہیں جن کے رشتے دار ان سے خفا اور دکھی ہیں ، جن سے بات کرتے ہوئے اور مدد مانگتے ہوئے لوگ ڈرتے ہوں، جن کے لئے اولاد کی پیدائش اور تربیت باعث ذلت ہو، جن کے لئے شوہر کی خدمت اور گھر کا کام و کاج باعث ننگ و عار ہو، جو اپنے ساس سسر کو اولڈ ایج ہوم میں ڈال کر مطمئن ہوجانے والی ہوں، جو بے حسی اور خود غرضی کے اعلیٰ درجے پر ہوں ، جن کے لئے صرف اپنا مفاد سب کچھ ہو اور باقی دنیا کی کوئی پرواہ نہ ہو۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کے اصل مفہوم کو سمجھا جائے۔ عورت خود اپنی تعلیم و تربیت سے کبھی غافل نہ رہے اور نہ ہی اپنے خاندان اور بچوں کی تعلیم و تربیت سے۔ اللہ تعالیٰ نے دو الگ صنف الگ الگ خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ بنائی ہیں اور دونوں پر الگ ذمہ داریاں ڈال کر ایک ساتھ چلنے اور اپنے اپنے فرائض کی تکمیل کا حکم دیا ہے۔ ساتھ ہی دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی پوری اجازت بھی دی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فطرت نے عورت پر جو ذمہ داریاں ڈالی ہیں انہیں بحسن خوبی نبھا کر عورت اپنے تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت دے۔ اگر وہ اس سے اعراض کریں گی تو محض ڈگری یافتہ بن کر رہ جائیں گی اور تعلیم یافتہ کہلانے کی حقدار نہ ہوں گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146