عہد نبوی میں جب تعلیم کا رجحان بڑھا تو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں نے بھی حصول علم کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ دینی احکام و مسائل کو سیکھنے اور نبی اکرمؐ کے وعظ وتذکیر سے فائدہ اٹھانے کے لئے عورتیں بے چین رہا کرتی تھیں۔ احکام دین کو معلوم کرنے کی ایسی تڑپ ان کے اندر پیدا ہو گئی تھی کہ وہ شب و روز اس کی تلاش و جستجو میں لگی رہتی تھیں اور اپنی فطری شرم و حیا کو اس کی راہ میں رکاوٹ بننے نہیں دیتی تھیں، جیسا کہ انصار کی خواتین کے متعلق حصرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
’’انصار کی عورتیں بھی خوب تھیں۔ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے کے سلسلے میں حیا اور شرم ان کے لیے رکاوٹ نہیں بنی تھی‘‘۔
عورتوں کے علمی ذوق و شوق کو دیکھ کر آپؐ نے ان کے لئے وعظ کا خصوصی انتظام فرما دیا تھا۔ جیسا کہ بخاری کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضورؐ نے عورتوں کی درخواست پر ان کے وعظ وارشاد کا خاص دن مقرر فرما دیا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے:
’’عورتوں نے نبیؐ سے کہا: آپؐ کی مجلس میں ہمیشہ مردوں کا ہجوم رہتا ہے لہذا آپ ہمارے لئے الگ ایک دن مقرر فرما دیں۔ چنانچہ (ایک دن متعین کر کے) آپ ﷺان کے پاس تشریف لے گئے اور وعظ و نصیحت فرمائی اور انہیں نیک کاموں کا حکم دیا‘‘۔
اس دور کی خواتین اسلامی احکامات کو جاننے اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا گہرائی اور دقّت نظر سے مطالعہ بھی کرتی تھیں جس کا اندازہ حضرت عائشہؓ کے ان الفاظ سے کیا جاسکتا ہے:
’’ حضورؐ کے عہد میں ایک آیت نازل ہوتی تو ہم اس کے بتائے ہوئے حلال و حرام اور امرو نہی کو حفظ کر لیتے گو اس کے الفاظ کواز برنہ کریں‘‘۔
عورت کی تعلیم کی قانونی حیثیت کے متعلق آٹھویں صدی کے مشہور مالکی عالم علامہ ابن الحاج لکھتے ہیں:
’’اگر عورت دین کے معاملے میں اپنا حق شوہر سے طلب کرے اور حاکم کے پاس اس کا دعویٰ کر دے اور اپنی دینی تعلیم کا اس سے تقاضا کرے، کیوں کہ اس کا یہ حق ہے کہ یا تو شوہر خود ہی اسے تعلیم دے یا اس کو گھر سے باہر جاکر تعلیم دینے کی اجازت دے، تو حاکم کے لیے ضروری ہے کہ وہ شوہر کو اس مطالبہ کی تکمیل پر مجبور کرے، جس طرح وہ دینوی حقوق کے سلسلے میں کرتا ہے۔ کیوں کہ دینی حقوق زیادہ موکّد اور زیادہ اہم ہیں۔‘‘
صحابیات کی علمی تڑپ اور نبی اکرمؐ کی ان کی تعلیم و تربیت کے لئے کی گئی پیہم کوششوں کی وجہ سے، عورتیں جنہیں دور جاہلیت میں باعث ننگ و عار سمجھا جاتا تھا، علم دین کی نگہباں اور محافظ بن گئیں اور رہتی دنیا تک کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوئیں۔ ذیل میں کبار صحابیات اور ان کے میدانِ علم کا تذکرہ اس لیے مقصود ہے کہ ہماری نئی نسل علم کی طرف رغبت میں ان سے مہمیز لے۔
حضرت عائشہؓ
حضرت عائشہؓ کا مقام و مرتبہ صرف صحابیات ہی میں نہیں بلکہ صحابہ کی جماعت میں بھی بہت نمایاں ہے۔ آپ کے خاص شاگرد عروہ بن زبیرؓ ان کی وسعت علم کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’ میں نے عائشہ سے زیادہ قرآن ، فرائض، حلال و حرام، شعرو ادب، اہل عرب کی تاریخ اور ان کے حسب نسب کو جاننے والا کسی کو نہیں پایا۔‘‘
’’عائشہ ؓ کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسے ہی ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے۔‘‘
تفسیر قرآن، حدیث، اسرار شریعت، خطابت، آیات کے نزول، حدیث کے مطلب و مفہوم، ادب و انساب میں ان کو کمال حاصل تھا۔ صحابہ کرام کو جب بھی کوئی مشکل سوال پیش آتا تو اس کو حضرت عائشہ ؓ سے پوچھتے اور وہ اس کا حل بتاتیں۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے: ’’ہم اصحاب رسول کو کوئی ایسی مشکل بات پیش نہیں آئی جس کو ہم نے عائشہؓ سے پوچھا ہو اور ان کے پاس اس کے متعلق معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔‘‘
امام ذہبی ارشاد فرماتے ہیں: ’’وہ امت کی تمام عورتوں میں سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔‘‘
آپ طب اور حساب دانی میں بھی بہت ماہر تھیں۔ آپ کی طب کی معلومات پر لوگوں کو حیرت و استعجاب ہوتا ہے۔ ہشام بن مالک بیان کرتے ہیں کہ عروہ ؓ نے ایک دن ان سے پوچھا: ’’اے خالہ طب کہاں سے آپ نے سیکھی؟ جواب دیا کہ حضورؓ کو جب کوئی مرض لاحق ہوتا تو باہر سے حاضر خدمت ہونے والے وفود اس کا علاج بتاتے اور میں اس کو یاد رکھتی۔‘‘
’’ آپ کی حساب دانی کا یہ حال تھا کہ اکابر صحابہ آپ سے میراث کے مسائل دریافت فرماتے۔‘‘
اس قسم کی بہت سی مثالیں احادیث اور فتاوی کی کتابوں میں منقول ہیں۔ان کے طالب علموں کی ایک کیثر تعداد ہے جنہوں نے بعدمیں علم دین کو دوسروں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
حضرت عائشہ ہر سال حج کو تشریف لے جاتیں جہاں دوردراز ممالک سے آئے ہوئے طالبان علم ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے اور اپنے مسائل دریافت کرتے اور شوک و شبہات کا ازالہ چاہتے۔
رحلت نبی اکرمؐ کے بعد کے پورے عرصے میں وہ تمام عالم اسلام کے لیے رشد و ہدایت، علم وفضل اور خیر و برکت کا عظیم مرکزبنی رہیں۔ ان سے ۲۲۱۰ (دو ہزار دو سو دس) حدیثیں مروی ہیں۔ بعض کا قول ہے کہ احکام شرعیہ کا ایک چوتھائی حصہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول ہے۔
امام ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں: ’’لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے آپ سے اخذواستفادہ کیا اور بہت سے احکام و آداب ان سے نقل کئے حتی کہ کہا جاتا ہے کہ شریعت کے ایک چوتھائی احکام ان سے منقول ہیں۔‘‘
عطابن ابی رباح کہتے ہیں:’’حضرت عائشہ لوگوں میں سب سے زیادہ فقیہہ، سب سے زیادہ علم رکھنے والی اور عوام کے بارے میں سب سے زیادہ اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔‘‘امام زہری لکھتے ہیں: ’’اگر سب لوگوں کا علم جمع کیا جائے اور پھر رسول اللہﷺ کی ازواج مطھّرات کے علم کا بھی اس میں اضافہ کیا جائے تو حضرت عائشہ کا علم ان سے زیادہ وسیع ہوگا۔‘‘
ام المومنین حضرت ام سلمہؓ
حضرت عائشہ کے بعد حدیث و فقہ اور دوسرے علوم میں ان کا پایہ سب سے بلند تھا۔ نبی کریمؐ کے ارشادات مبارک کو سننے اور علم دین سیکھنے میں آپ ہمیشہ آگے رہا کرتی تھیں۔
’’آپ سے ۳۷۸، احادیث مروی ہیں ان میں تیرہ روایات بخاری اور مسلم دونوں میں ہیں ان کے علاوہ تین بخاری میں اور تیرہ مسلم میں پائی جاتی ہیں۔‘‘
علامہ ابن قیم کا بیان ہے: ’’حضرت ام سلمہؓ کے فتاویٰ سے ایک چھوٹا سارسالہ تیار ہو سکتا ہے۔‘‘
کتابت
علم کی جو لہر دور نبوی میں نبی اکرمؐ کی تربیت میں اٹھی تھی اس کی وجہ سے خواتین نے بھی پڑھنے پڑھانے کو اپنا مشغلہ بنا لیا۔ اس دور میں جب کہ کتابت اور تحریر کرنے کا عام رواج نہیں تھا لیکن کچھ خواتین لکھنا بھی جانتی تھیں۔ جیسا کہ ابو داؤد میں ہے:
حضرت شفاء ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں اس وقت حفصہ ؓ کے پاس تھی پس آپﷺ نے فرمایا: آپ اسے (حفصہ) کو نملہ ( ایک زخم جو پہلو میں ہوتا ہے ) کیوں نہیں سکھا دیتیں جیسے کہ آپ نے انہیں کتابت سکھائی ہے؟ ‘‘
اسما بنت مخرمہؓ عطر فروخت کرتی تھیں اور ادھار رقم کا کھاتہ لکھ لیا کرتی تھیں۔
علم طب
بہت سی روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ عورتیں دور نبوی میں مردوں کے ساتھ جہاد کے لئے نکلتی تھیں۔ میدان جنگ میں ان کا کام زخمیوں کا علاج اور لوگوں کو پانی پلانا اور کھانا بنانا وغیرہ ہوتا تھا۔
ام عطیہؓ اپنے متعلق فرماتی ہیں: ’’رسول اللہؐ کے ساتھ میں نے سات غزوات میں شرکت کی، وہاں میں مجاہدین کے سامان کی نگہداشت کرتی، ان کے لئے کھانا تیار کرتی، زخمیوں کا علاج اور بیماروں کی تیمارداری کرتی۔‘‘
حمنہ بنت حجشؓ کے بارے میں روایت ہے:
’’احدمیں وہ شریک تھیں۔ پیاسوں کو پانی پلاتیں، زخمیوں کو منتقل کرتیں اور ان کا علاج کرتیں۔‘‘
جنگ احد میں ام عمارہ (نسبیہ بنت کعب) کا تذکرہ یوں ہوا ہے:
’’وہ زخمیوں کو پانی پلانے کے ارادے سے مشکیزہ لے کر مجاہدین کے ساتھ سویرے ہی میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگئی تھیں۔ ان کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ ان کی کمر میں پٹیاں تھیں، جو مجروحین کی مرہم پٹی کے لیے انہوں نے تیار کر رکھی تھی۔ چنانچہ انہوں نے میرے زخم کو ایک پٹی سے باندھا۔‘‘
یہ روایات جہاں ایک طرف عورتوں کی جہاد میں شرکت اور دین کے لئے مردوں کے قدم سے قدم ملا کر ساتھ چلنے کو ظاہر کرتی ہیں وہیں اس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ بہت سی عورتیں دور نبوی میں علاج و معالجہ اور طب سے بخوبی واقف ہوا کرتی تھیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا جانتی تھیں۔ جہاد میں وہ یہ خدمت اللہ کے لئے کرتی تھیں اور مردوں کا علاج و معالجہ کرتیں ۔ بعض خواتین کے بارے میں آتا ہے کہ وہ میدان جنگ سے باہر بھی یہ خدمات انجام دیا کرتی تھیں اور ان کے مریضوں میں مرد بھی شامل ہوا کرتے تھے مثلاً رفیدہ نامی قبیلہء اسلم کی ایک انصاری خاتون کے متعلق مورخین نے لکھا ہے: ’’مسجد نبوی میں ان کا خیمہ تھا۔ حضرت سعد بن وقاصؒ جنگ خندق میں مجروح ہوئے تو حضورؐ نے ان کو رفیدہ ہی کے خیمہ میں منتقل کر دیا تھا، تاکہ آپؐ بہ آسانی ان کی عیادت کر سکیں۔‘‘
اسلام عورتوں پر تعلیم کے حصول کے لئے قدفن نہیں لگاتا یہاں تک کہ مسلمانوں کا جو دور انحطاط ہے اس میں بھی عورتیں تعلیم حاصل کرتے ہوئے نظر آرہی ہیں۔ اسلامی تاریخ کاہر دور ایسی بہت سی ممتاز خواتین سے بھرا پڑا ہے جو اپنی تمام تر فطری حیا اور اسلامی اقدار و روایات کی پابندی کرتے ہوئے علم سیکھنے میں لگی ہوئی تھیں۔ کیونکہ اسلام میں مرد و عورت دونوں پر تعلیم کا حصول فرض قرار دیا گیا ہے اور ایک عورت بھی ایک ذمہ دار فرد کی طرح اپنے تمام تر اعمال کے لئے اللہ کے سامنے جوابدہ ہوگی۔
عورت کی گود میں ہی نسل انسانی کی پرورش ہوتی ہے ایسے میں عورت کی تعلیم و تربیت کی اہمیت مرد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ماں کی گود ہی پہلی درسگاہ ہوتی ہے یہاں سے بچہ بنیادی تعلیمات حاصل کرتا ہے جو اس کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ تعلیم یافتہ عورت بچوں کی تربیت ، ان کے متعلق فیصلہ لینے اور باہری دنیا کے مطابق ان کے اخلاق و کردار کو بنانے اور سنوارنے میں ز یادہ مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ ان کے کیریر کے انتخاب، دوستوں کے انتخاب، کتابوں کے انتخاب میں غیر تعلیم یافتہ ماں کے بہ نسبت زیادہ بہتر ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ عورتوں کو بھی مردوں کی طرح تعلیم کے حصول کے پورے مواقع حاصل ہونے چاہئیں۔ اگر ہم ایک روشن خیال اور ترقی یافتہ سماج چاہتے ہیں تو یہ کہنا بیجانہ ہوگا کہ مرد اور عورت دونوں کو عمدہ قسم کی تعلیم فراہم کرنی ہوگی۔
یہ حقیقت ہے کہ دور ماضی میں عورتوں کی تعلیم پر خرچ کرنا نہایت ہی بیکار محسوس کیا جاتا تھا۔ انہیں صرف قرآن کی یا گھریلو تعلیم دی جاتی اور آگے کی تعلیم کے راستے کو مسترد کر دیا جاتا، لیکن آزادی ہند کے بعد جب عورتوں کی تعلیم اور انہیں با اختیاربنانے کے لئے منظم کوششیں شروع ہوئیں تو اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آئے۔ عورتوں میں تعلیم کے حصول کے لئے جوش اور جذبہ بڑھتا گیا حکومت اور دوسرے اداروں کے ذریعے بنائی گئی پالیسیوں نے عورت کے حصول علم کو مزید پروان چڑھایا۔ اس تحریک کا مسلمان عورتوں پر بھی اثر پڑا لیکن اپنے نتائج کے لحاظ سے یہ اتنا خاطر خواہ اور اطمینان بخش نہیں ہوا۔ اب بھی دور جدید کے ہندوستان میں مسلم عورتیں دوسرے مذاہب کی عورتوں کے بہ نسبت زیادہ غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ ان میں تعلیم کی شرح اور معاشی ترقی کی شرح دوسری عورتوں کے مقابلے میں نہایت کم ہے۔ لیکن ایک بات جو کہ اچھے مستقبل کی نشاندہی کر رہی ہے کہ عورتوں اور مردوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے لئے concernاور آگاہی بڑھ رہی ہے۔ اب نوجوان عورتیں اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کا جذبہ رکھتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں اگر ہم اپنی آنے والی نسل کو دینی و دنیاوی لحاظ سے بہترین انسان بنانا چاہتے ہیں اور مسلم امت کو ان کا کھویا ہوا عروج عطا کرنا چاہتے ہیں تو لازما پہلے ہمیں اپنی عورتوں اور بچیوں کو تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ کرنا ہوگا تاکہ ان کی گود میں پلنے والی نسل بہترین تعلیم و تربیت سے لیس ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھے اور اپنی قوم و ملت، ملک اور سماج کے لئے فائدہ مند ثابت ہو۔