عیدالاضحی حقیقتِ اسلامی کا درس

سید ابواعلیٰ مودودیؒ

عیدالاضحی اسلام کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ اس تہوار کی سی شان صرف اسلام ہی کے تہواروں میں نہیں، بلکہ تمام مذاہب و اقوامِ عالم کے تہواروں میں بھی نہیں پائی جاتی۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ہوجانا، ہر امیر و غریب اور کبیر و صغیر کا دو فقیرانہ چادروں میں لپٹ کر عبدیت و نیاز مندی کا پیکر بن جانا، ایک چھوٹی سی چاردیواری کے گرد ہر شخص کا دیوانہ وار چکر لگانا اور پھر تین دن کے اندر اتنے جانوروں کو اپنے معبود کی رضا و خوشنودی پر قربان کردینا کہ اگر ان سب کا خون جمع کیا جائے تو ایک دریا بہہ جائے، یہ سب ایسی باتیں ہیں جنھوں نے اس کو حقیقت میں دنیا کا سب سے بڑا انسانی تہوار بنادیا ہے۔
یہ تو عیدالاضحی کا ایک ظاہری پہلو ہے، لیکن بہرصورت اسلام مظاہر پرست نہیں۔ اس کے ہر ظاہر میں ایک باطن اور ایک شاہد حقیقت جلوہ آرا ہوتی ہے۔ اس کے تہوار موسمی تغیرات کے جشن یا شخصی کارناموں کی یادگاریں نہیں، بلکہ اپنے اندر ایک خاص تعلیم پوشیدہ رکھتے ہیں۔ پس اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ آیا عید کے ان اوپری مظاہرات میں کوئی باطنی تعلیم مضمر ہے؟
یہ تہوار ملتِ حنیفی کے سب سے پہلے داعی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے اس عظیم الشان کارنامے کی یادگار ہے، جو تسلیم و رضا اور بندگی و عبدیت کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ آج سے پانچ ہزار سال پہلے کالڈیا (عراق) کے بت پرستوں میں ایک شخص پیدا ہوتا ہے، اس کی تمام قوم درختوں اور پتھروں کو پوجتی ہے، اس کے ارد گرد ہر طرف صنم پرستی کا چرچا ہے، خود اس کے گھر میں بت تراشے جاتے ہیں، مگر اس کا قلبِ صمیم ان بے جان مورتیوں کو اپنا معبود تسلیم کرنے سے انکار کردیتا ہے اور اپنے باپ اور اپنی قوم سے صاف کہہ دیتا ہے: ’’جن چیزوں کو تم پوجتے ہو، ان سے میرا کچھ واسطہ نہیں۔ میں تو اسی کو پوجوں گا جس نے میری فطرت کی تخلیق کی ہے اور وہی مجھے راہِ راست پر لگادے گا۔‘‘
اس کے سامنے چمکتا ہوا تارا آیا کہ اسے دھوکا دے، اس کے سامنے روشن چاند آیا کہ اس کی جبینِ نیاز کو اپنے سامنے سجدہ ریزی پر مائل کرے، اس کے سامنے آفتابِ عالم تاب آیا کہ اس کی چشمِ حقیقت بیں کو خیرہ کردے، مگر اس نے ملکوت السموات والارض میں سے کسی کو اپنی عبودیت کے لیے قبول نہ کیا اور صاف پکار اٹھا کہ’’میں ان چیزوں کو ہر گز خدائی کا اہل نہیں سمجھتا جن کا حسن عارضی اور جن کی چمک فنا پذیر ہے۔‘‘
’’میں تو صرف اسی ایک ذات کا ہولیا، جس نے زمین وآسمان کو پیدا کیا ہے، اور یقینا میں اس کے ساتھ کسی اور کو شریک کرنے والوں میں نہیں۔‘‘
اس کی قوم اور اس کے رشتے داروں نے جب اسے اپنے مذہب سے اس طرح منحرف اور اپنے بتوں کی کھلی کھلی توہین کرتے دیکھا تو انھوں نے اسے سزا دینی چاہی تاکہ وہ کسی طرح گمراہی پر راضی ہوجائے۔ مگر وہ اپنے گھر بار، قوم اور وطن سب کو چھوڑ کر اللہ کی راہ میں چل کھڑا ہوا اور حق کی محبت نے اس کے دل سے تمام محبتوں کو نکال دیا۔ دنیوی حاجتوں نے اس کے پاؤں میں زنجیر ڈالنی چاہی، ضرورتوں نے اس کے ہاتھ کو پکڑنا چاہا اور مصائب کے خوف اور غریب الوطنی کے آلام نے اس کے عزم کو توڑنا چاہا، مگر اس نے یہ کہہ کر سب کے منہ بند کردیے کہ:
’’(ایک رب العالمین) جس نے مجھے پیدا کیا، پھر وہی میری رہنمائی فرماتا ہے، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور جب بیمار ہوجاتا ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ جو مجھے موت دے گا اور پھر دوبارہ مجھے زندگی بخشے گا اور جس سے میں امید رکھتا ہوں کہ روزِ جزا وہ میری خطا معاف فرمادے گا۔‘‘
اس شانِ توکل سے وہ عراق کے سرسبز و شاداب میدانوں کو چھوڑتا ہے اور حجاز کے ایک بے آب و گیاہ میدان میں اپنی بیوی اور اپنے بچے کو آباد کردیتا ہے۔ لیکن وہ جس نے اس کے صنم کدئہ دل کو باپ، بھائی، خاندان، قوم اور وطن سب کی محبتوں کے بتوں سے خالی کرکے صرف اپنی محبت کے لیے مخصوص کرلیا تھا، اس کو گوارا نہ کرسکا کہ بیٹے کی محبت بھی اس میں شریک رہے، چنانچہ اس نے مطالبہ کیا کہ اگر ہم سے محبت رکھنی ہے، تو اس کو بھی قربان کرو۔ وہ اگرچہ تسلیم و رضا کا پتلا تھا، مگر پھر بھی باپ تھا۔ اس نے بیٹے سے پوچھا:’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمھیں ذبح کررہا ہوں، پھر اب کہو کہ تمہاری کیا رائے ہے؟‘‘
کوئی اور بیٹا ہوتا تو شاید جان دینے سے جی چراتا، مگر وہ تو اسی پیکرِ اسلام کا بیٹا تھا، اس نے بلا تامل کہا:’’ابا جان! کر گزرئیے جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ اگر خدا نے چاہا، تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘
یہ ان باپ بیٹوں کا وہ کارنامہ تھا، جس کے سامنے دنیا کی تمام نیاز مندیاں، تمام بندگیاں اور تمام عبدیتیں ہیچ ہیں۔ باپ کا اپنے ہاتھ سے اپنے معصوم بچے کو ذبح کرنے پر آمادہ ہوجانا اور بیٹے کا خوشی خوشی اپنے گلے پر چھری چلوانے کے لیے راضی ہوجانا محبت و رضا جوئی کا وہ آخری درجہ ہے، جس کے بعد کوئی اور درجہ ممکن نہیں۔ پس سیدنا ابراہیمؑ و اسماعیل جب تسلیم و رضا کے اس آخری درجے پر پہنچ گئے، تو اللہ نے انھیں ’’مسلم‘‘ یعنی سچے فرماں بردار کا خطاب عطا فرمایا اور ان کے اس شیوئہ تسلیم کو ’’اسلام‘‘ یعنی حقیقی فرماں برداری کے لفظ سے تعبیر کیا، چنانچہ فرمایا ہے:
’’پھر ان دونوں نے اسلام (فرماں برداری) کا اظہار کیا اور اس نے لڑکے کو پیشانی کے بل گرادیا، تو ہم نے پکارا کہ اے ابراہیمؑ، تم نے خواب کو سچ کردکھایا، ہم اسی طرح محسنوں کو جزا دیتے ہیں۔ حقیقت میں یہ بڑی آزمائش تھی۔‘‘
دوسری جگہ اسی فرماں برداری کے متعلق فرمایا ہے:’’جب اس سے اس کے پروردگار نے کہا کہ اسلام لے آؤ تو اس نے کہا میں اسلام لایا پروردگار عالمین کے لیے۔‘‘
پس معلوم ہوا کہ اسلام جس فرماں برداری، جس اطاعت اور جس شیوئہ تسلیم کا نام ہے، اس کی حقیقت یہی ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ و اسماعیلؑ کا عمل ’’حقیقتِ اسلامی‘‘ کا صحیح نمونہ پیش کرتا ہے اور قرآن کی اصطلاح میں ’’ مسلم‘‘ وہی ہے، جو اللہ کی محبت میں سب محبتوں کو قربان کردے، محبتِ الٰہی میں تمام لذتوں اور آسائشوں کو تج دے اور اس کے مقابلے میں جان،مال عزت و آبرو، اولاد، عزیز، اقارب، قوم، وطن غرض یہ کہ کسی چیز کو بھی عزیز نہ رکھے۔
کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراہیم و الذین معہ۔ کا اشارہ صاف بتلاتا ہے کہ ’’اسلام‘‘ وہی ہے جو ابراہیم و اسماعیل کے دل میں تھا اور ’’مسلم‘‘ کی زندگی کا صحیح نمونہ وہی ہے جو ان دو اولین مسلموں نے پیش کیا۔ پس یہ جو ترکتنا علیہ فی الآخرین کے بموجب سال کے سال اس ذبح عظیم کی یادگار منائی جاتی ہے، تو اس سے دراصل حضرت ابراہیمؑ کی نقل مقصود نہیں بلکہ مسلمانوں کو سال بھر میں ایک دفعہ حقیقتِ اسلامی کا درس دینا مقصود ہے، جو آج سے پانچ ہزار سال پہلے حجاز کی ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں پیش کیا گیا تھا۔
پھر یہ محض حقیقتِ اسلامی کا درس ہی نہیں، بلکہ اس امر کا اعلان بھی ہے کہ حضرتِ حق کی بارگاہ میں جب کوئی سچی فرماں برداری کا ہدیہ پیش کرتا ہے تو اسے کس کس طرح نوازا جاتا ہے۔ سیدنا ابراہیمؑ نے اخلاص و محبت کا جو ہدیہ پیش کیا تھا، اس پر بارگاہِ جل و علا کی نوازش تو دیکھئے کہ ان کے ایک ایک عمل کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ کردیا گیا اور اسے وہ بقائے دوام عطا کیا گیا جس پر بڑے بڑوں کو رشک آتا ہے۔ انھوں نے اپنے ہاتھ سے جو چار دیواری تعمیر کی تھی، اسے اللہ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کا قبلہ مقصود اور کعبہ آمال بنادیا۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس گھر کے گرد جس شیفتگی و وارفتگی کے ساتھ طواف کیا تھا، وہ کچھ ایسا مقبول ہوا کہ ساری امتِ مسلمہ کے لیے اسی طرح طواف کرنا لازم کردیا گیا۔ انھوں نے اپنے دوست کی ندا پر ’’لبیک‘‘ کی والہانہ صدا بلند کی تھی، وہ اسے کچھ ایسی پسند آئی کہ ہر مسلمان کے لیے طواف کے وقت وہی صدا بلند کرنا ضروری ہوگیا۔ انھوں نے اپنے محبوب کے دربار میں جانے کے لیے جو عاجزانہ لباس اختیار کیا تھا، وہ اسے کچھ اس قدر بھایا کہ اس نے اپنے گھر کی طرف آنے والوں کے لیے وہی لباس مقرر کردیا۔ انھوں نے بے خبری کی حالت میں بیٹا سمجھ کر جو دنبے کو ذبح کیا، تو یہ منظر اس کی نظروں میں کچھ ایسا کھب گیا کہ اب سال کے سال یہی منظر پیش کرنا تقر بِ الٰہی کی لازمی شرط بنادیا گیا، اور حد یہ ہے کہ ان کی مہاجر بیوی جب اپنے شیر خوار بچے کی پیاس بجھانے کے لیے پانی کی تلاش میں نکلیں اور سراسیمگی کے عالم میں صفا اور مروہ کے درمیان انھوں نے کئی چکر لگائے، تو یہ دل لبھانے والا نظارہ بھی قیامت تک کے لیے محفو ظ کردیا گیا۔
انعام و اکرام کی یہ بارش یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ آگے چل کر ہم داد و دہش کی وہ شان دیکھتے ہیں، جو حقیقت میں حضرتِ حق کی فیاضی اور دریا بخشی کی مظہر اتم ہے۔ جس وقت یہ دونوں باپ بیٹا اس تپتے ہوئے ریگ زار میں اللہ کے اس مقدس گھر کی بنیاد اٹھا رہے تھے، تو ان کی زبان پر عالمِ ذوق و شوق میں بے اختیار یہ دعا جاری ہوگئی کہ:
’’اے ہمارے رب! ہماری عرض نیاز کو قبول کر کہ تو ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرماں بردار بندہ بنا اور ہماری نسل میں ایسی قوم پیدا کر جو تیری فرماں بردار ہو، اور ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری خطاؤں سے درگزر کر، کہ تو ہی سب سے بڑا خطا بخش اور رحم کرنے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ان کے درمیان خود انہی میں سے ایک رسول بھیج جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرے۔ یقینا تو ہی عزت اور حکمت والا ہے۔‘‘
’’اے پروردگار! اس شہر کو مامون کردے اور مجھے اور میری اولاد کو اس سے بچا کہ ہم بتوں کو پوجنے لگیں۔ اے پروردگار! ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کردیا ہے، پس جو کوئی میری پیروی کرے، وہ مجھ سے ہے اور جو میرے خلاف عمل کرے، تو تو رحیم و غفورہے۔ اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے پاس ایک بے آب و گیاہ وادی میں بسادیا ہے تاکہ نماز قائم کریں۔ پس تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کردے اور انھیں پھلوں سے رزق عطا کر، شاید کہ وہ تیرا شکر ادا کریں۔‘‘
یہ دعا ایسی مقبول ہوئی کہ اللہ نے لفظ بلفظ اسے پورا کردکھایا۔ امتِ مسلمہ کی تاریخ شاہد ہے کہ تمام اقوامِ عالم میں سب سے پہلے ذریتِ اسماعیلؑ ہی کو اعلائے کلمہ اسلام کی خدمت کے لیے مخصوص کیا گیا اور وہی اسلام لانے والوں کی سرخیل بنائی گئی۔
لقد من اللّٰہ علی المؤمنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم۔
’’اللہ نے مومنوں پر احسان کیا ہے کہ انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا۔‘‘
کی صداقت گواہ ہے کہ اللہ نے ابراہیم کی اولاد میں خود انہی میں سے ایک رسول پیدا کیا جس نے آیات الٰہی کی ایسی تلاوت کی اور ان کے نفوس کا ایسا تزکیہ کیا اور انھیں کتاب وحکمت کی ایسی تعلیم دی کہ نہ کسی نے اس سے پہلے یہ خدمت اس شان سے انجام دی تھی اور نہ بعد میں کوئی انجام دے سکا۔ ’’کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم نے ایک حرم امن والا بنایا ہے اور لوگ ارد گرد سے کھنچے چلے آتے ہیں۔‘‘ کا ارشاد گواہی دیتا ہے کہ اللہ نے اس پاک شکر کو ایسا مامون کیا کہ اس کے جانور اور اس کے گھاس پات تک ہر قسم کی تعدی سے محفوظ ہوگئی اور اس پر الم ترکیف فعل ربک باصحاب الفیل کا ارشاد مزید گواہی دیتا ہے کہ جس کسی نے اس ’’حرم امن‘‘ کی مامونیت کو مٹانا چاہا، اسے اللہ نے خود مٹا کر رکھ دیا۔ پھر جس طرح اللہ نے اس ’’بیت محرم‘‘ کو تمام دنیا کے مسلمانوں کا قبلہ بناکر لاکھوں کروڑوں انسانوں کے دل اس طرف مائل کردیے اور جس طرح اس کے باشندوں پر رزق وثمرات کی بارش کی، وہ اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اللہ نے حضرت ابراہیمؑ کی دعا کے آخری حصے کو بھی پوری طرح قبولیت کا شرف عطا کیا۔
یہ جو کچھ بھی سرفرازیاں اور لطف و کرم کی بارشیں تھیں، سب اس ’’فرماں برداری‘‘ کا انعام تھیں، جسے اللہ نے ’’اسلام‘‘ کے جامع لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ پس عیدالاضحی جو اس کی پہلی اور سب سے بڑی فرماں برداری کی یادگار ہے، دراصل ہمارے لیے ہر سال دوگونہ پیغام لاتی ہے، یہی اصلی اسلام یعنی فرماںبرداری ہے اور جو شخص اس قسم کا مسلم یا فرماں بردار ہوتا ہے، اس کا قلب درحقیقت لوحِ محفوظ کا آئینہ ہوتا ہے کہ اس سے جو کچھ نکلتا ہے، پتھر کی لکیر ہوجاتا ہے۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146