عیدالاضحی – عہدومیثاق کی یاددہانی

???

حمد وصلوٰۃ کے بعد!

برادرانِ اسلام! کیا آپ نے کبھی غورفرمایا کہ یہ عیدالاضحی جس کے لیے آپ اتنا اہتمام کرتے ہیں، جس میں قربانی کے لیے آپ سال دوسال پہلے سے ہی جانور پالتے ہیں، یا کم از کم مہینہ دو مہینہ پہلے ہی اس کے لیے فکر مند ہوجاتے ہیں اور قربانی کے لیے اچھے سے اچھا جانور حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ذی قعدہ کا مہینہ ختم ہونے کو ہوتا ہے تو نہایت اہتمام سے ذی الحجہ کا چاند تلاش کرتے ہیں تاکہ صحیح وقت پر پوری تیاری کے ساتھ اور پورے اہتمام کے ساتھ آپ یہ عید مناسکیں۔ پھر عید کی صبح طلوع ہوتی ہے تو آپ نہا دھوکر صاف ستھرے ہوکر اچھے سے اچھے کپڑے پہن کر جلد سے جلد عیدگاہ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ عید جس کے لیے آپ یہ سارے جتن کرتے ہیں، کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ آخر یہ عید ہے کیا، اس کی تاریخ کیا ہے؟ اس کی غرض و غایت کیا ہے، اس کی روح اور اس کی منشا کیا ہے؟ یہ عید کس لیے آتی ہے اور یہ آپ کو کیا پیغام دیتی ہے؟

میرا احساس ہے، ہم نے اس حیثیت سے اس پر غور نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ ہم عید تو ہر سال مناتے ہیں اور پوری دھوم دھام سے مناتے ہیں، مگر اس کی حقیقی برکتوں سے یکسر محروم رہتے ہیں۔ عید آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ مگر ہمارے لیل و نہار جوں کے توں رہتے ہیں۔ ہمارے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

میرے بزرگو اور دوستو! شاید آپ سوچیں عید سے حالات میں تبدیلی آنے کا کیا سوال؟ تیوہار کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں کہ وہ قوموں کے حالات پر اثر انداز ہو اور کسی ترقی و تنزل یا عروج و انحطاط کا سبب بنے۔ تیوہار کا مقصد تو یہی ہوا کرتا ہے کہ کچھ دیر کے لیے لوگ غموں سے نجات پاجائیں، دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ کچھ خوشیاں منالیں، کچھ ہنسی اور تفریح کی باتیں کرلیں، کچھ دیر کے لیے تمام آلام و مصائب کو بھول جائیں اور ذہن و دماغ کو کچھ آرام دے لیں۔

اگر آپ کو اپنے اس طرزِ فکر پر اطمینان ہے تو ٹھیک ہے۔ مگر آہ! میں اسے کیسے تسلیم کرلوں کہ میری کیفیت تو عید کے موقع پر اس سے بالکل مختلف ہوتی ہے، یہ دن میرے غموں اور حسرتوں کی آگ کو بجھاتا نہیں بلکہ اسے اور کرید دیتا ہے، میرا دل تو ہر عیدالاضحی کے موقع پر روتا ہے اپنی محرومیوں اور بدنصیبیوں پر ماتم کرتا ہے کہ آہ! اسی زمین پر کتنے ہی خوش نصیب بندے ایسے ہیں جو آج اپنے آقا کے آستانے پر پہنچ کر اسے اپنی عقیدتوں اور محبتوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں۔ حج و زیارت کی برکتوں سے مالا مال ہورہے ہیں، مکے اور مدینے کی نورانی گلیوں میں ٹہل رہے ہیں، بیت اللہ کا دیوانہ وار طواف کررہے ہیں، صفاو مروہ کے درمیان سعی کررہے ہیں۔ روضۂ اطہر پر پہنچ پہنچ کر درود وسلام کی سوغاتیں پیش کررہے ہیں، مختصر یہ کہ سعادتوں اور کامرانیوں سے اپنے جیب و دامن بھر رہے ہیں اور ایک ہم بدنصیب ہیں کہ آج ہزاروں میل دور پڑے اس کے شوق میں تڑپتے ہیں۔

معلوم ہوا، عید کے بارے میں یہ تصور کہ وہ ہمارے غم، غلط کرنے آتی ہے، یا کچھ دیر کے لیے ہمیں خوشیوں میں مدہوش کردینے کے لیے آتی ہے، یکسر باطل ہے۔

پھر ہمیں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ عید کی اصل روح اور اس کی اصل منشا کیا ہے؟ یہ ہر سال کس لیے آتی ہے اور ہم سے کیا کہتی ہے؟ یہ ہمیں کیاپیغام دیتی اور ہماری زندگیوں میں کس قسم کا انقلاب چاہتی ہے؟ اس کے لیے مناسب ہوگا کہ ہم پہلے اپنے ذہن میں ان آیات کو تازہ کرلیں، جو اس موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔

’’سو جب وہ بیٹا اس عمر کو پہنچا کہ ابراہیم کے ساتھ دوڑ بھاگ کرنے لگا تو ابراہیم نے کہا: پیارے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تم کو ذبح کررہا ہوں سو تم بھی سوچ لو تمہاری کیا رائے ہے وہ بولا: ابوجان آپ کو جو حکم ملا ہے آپ اسے کرگزریے۔انشاء اللہ آپ مجھ کو صابرین میں سے پائیں گے۔ غرض جب ان دونوں نے اپنے آپ کو مکمل طور سے اللہ کے حوالے کردیا اور باپ نے بیٹے کو پہلو پر لٹا دیا تو ہم نے اسے پکارا اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا۔ ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں، حقیقت میں یہ تھی بھی کھلی ہوئی آزمائش اور ہم نے اس کی جان بچالی ایک عظیم قربانی کے بدلے۔ اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں اس کے لیے یہ فقرہ عام کیا۔ سلام ہو ابراہیم پر۔‘‘

ان آیات کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک عرصۂ دراز تک اپنی قوم کے اندر دعوت و تبلیغ کا کام کرتے ہیں، اسے توحید کی دعوت دیتے ہیں، حق کی شاہراہ دکھاتے ہیں، کفر و شرک کے انجام بد سے آگاہ کرتے ہیں، مگر قوم سب سنی ان سنی کردیتی ہے اور ان کی مخالفت میں سرگرم ہوجاتی ہے۔

وہ خدا سے دعا کرتے ہیں کہ انہیں ایک ایسی صالح اور مسلم و قانت اولاد عطا ہو جس سے امت مسلمہ کی داغ بیل پڑسکے، جس سے ایک ایسی نسل وجود میں آسکے جو صحیح معنوں میں حق کی امین بن سکے اور سارے عالم میں توحید کا پرچم لہراسکے، یہ پاکیزہ و معصوم دعا قبول ہوتی ہے اور انہیں ایک حلیم و بردبار بیٹے کی بشارت مل جاتی ہے۔

یہ بیٹا جوان ہوتا ہے اور اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ باپ کے کاموں میں ہاتھ بٹا سکے، حضرت ابراہیم اس بیٹے کو ساتھ لے کر خانۂ کعبہ کی تعمیر میں لگ جاتے ہیں، خانۂ کعبہ کی تعمیر شروع ہوجاتی ہے اور یہ کام اس انداز سے شروع کرتے ہیں کہ ہاتھ تو خانۂ کعبہ کی دیواریں چن رہے ہوتے ہیں اور دل میں یہ نیک تمنائیں موج زن ہوتی ہیں:

اے ہمارے رب! تو ہماری یہ حقیر خدمت قبول فرمالے، بلاشبہ تو دعائیں سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور اے ہمارے رب! تو ہم دونوں کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنا اور ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مطیع و فرماں بردار ہو۔ اور تو ہمیں ہماری قربان گاہیں دکھا اور ہمیں اپنی رحمت سے ڈھانپ لے، بلاشبہ تو بڑا مہربان اور رحم فرمانے والا ہے۔

ان دعاؤں سے آپ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کی تڑپ اور بے قراری کا اندازہ کرسکتے ہیں، حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے یہ دعائیں کتنے خلوص، کتنے درد اور کتنی للہیت کے ساتھ مانگی تھیں۔ لہٰذا کوئی وجہ نہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں یہ دعائیں قبول نہ ہوتیں۔ البتہ اس سے پہلے ضروری تھا کہ ان سے وجود میں آنے والی امت مسلمہ کے لیے تسلیم و رضا کی ایک حسین ترین مثال اور حوالگی و سپردگی کی ایک کامل ترین یادگار قائم کردی جاتی، چنانچہ حضرت ابراہیم کو یہ حکم ہوتا ہے کہ وہ اپنے نور نظر اور لخت جگر کو خدا کی راہ میں قربان کردیں، وہ اپنے اس اکلوتے کو خود اپنے ہاتھوں سے ذبح کردیں جو بڑھاپے کی آہ سحر گاہی اور نالۂ نیم شبی کے بعدعطا ہوا تھا، جو ان کی تمام امیدوں اور ساری تمناؤں کا مرکز تھا۔

ہم اس منظر کا تصور کرتے ہیں تو دل دہل جاتے ہیں اور جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مگر کیا اس پیکر تسلیم و رضا پر بھی کوئی گھبراہٹ طاری ہوئی؟ کیا اس نے اس حکم کو بجالانے میں کوئی پس و پیش کیا ؟ کیا یہ حکم سن کر اس کے اعصاب کچھ متاثر ہوئے؟

اللہ کی قسم! ذرا بھی نہیں! اس نے نہایت خوشی سے اس حکم کا خیر مقد کیا اور نہایت اطمینان کے ساتھ بیٹے سے اس کا ذکر کیا اور اس یقین کے ساتھ کیا کہ بیٹے کے قدم کبھی پیچھے ہٹنے والے نہیں۔

چنانچہ بیٹے نے وہی جواب دیا جس جواب کی اس سے توقع تھی، اس نے وہی جواب دیا جو اس مسلم باپ کے مسلم بیٹے کے شایانِ شان تھا، اس نے ایک لمحہ بھی توقف نہیں کیا۔ اس نے پورے شرح صدر اور پورے انبساط کے ساتھ کہا: میرے مہربان اور مشفق باپ! حکمِ الٰہی میں سوچنا کیا؟ جو حکم ملا ہے اسے کر گزریے، اللہ نے چاہا تو آپ میرے اندر کوئی کمزوری اور صبر وعزیمت کی کوئی کمی نہیں محسوس کریں گے:

افعل ما تؤمر ستجدنی ان شاء اللّٰہ من الصابرین۔

کچھ غور کیا آپ نے؟ کچھ غور کیا آپ نے کہ یہ باپ جو اپنے ہاتھوں سے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے تیار ہوگیا، یہ باپ کون تھا؟

یہ کوئی پتھر کا ڈلا نہ تھا۔ یہ شفقت و محبت کا پتلا تھا، یہ حلم و بردباری کا مجسمہ تھا، یہ رحمدلی و دل سوزی کا ایک بحرِ بیکراں تھا۔

ہاں تو وہی باپ جو رافت و رحمت کا پیکر اور شفقت و محبت کا مجسمہ تھا۔ جس کی دل سوزی و دردمندی دوست و شمن سب کے لیے عام تھی، ہاں وہی شفیق و رحیم باپ اپنے رب کا اشارہ پاتے ہی جگر گوشے کو ذبح کرنے کے لیے آستینیں چڑھا لیتا ہے۔

اللہ اللہ! تسلیم و رضا کا یہ کون سا مقام تھا! حوالگی و سپردگی کا یہ کیسا عجیب منظر تھا، زمین و آسمان کی نگاہوں نے اس عالم میں کیا کیا نہ دیکھا ہوگا۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اس سے پہلے ایسا منظر نہیں دیکھا ہوگا۔ ادھر باپ بیٹے نے اپنی تسلیم و رضا اور طاعت و سپردگی کا عملی ثبوت فراہم کیا، ادھر پروردگار عالم نے خود آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ہاتھ پکڑ لیا کہ بس بس! اس سے زیادہ نہیں چاہیے، ہمیں جو کچھ دیکھنا تھا دیکھ لیا۔

ارشاد ہوتا ہے:

وفدیناہ بذبح عظیم۔

’’اور ہم نے عظیم قربانی کی سنت جاری کرکے اس کی جان بچالی۔‘‘

محترم بزرگو اور عزیزساتھیو! یہ وہ عظیم واقعہ ہے جس کی یادگار کے طور پر ہم یہ عید مناتے ہیں، اس واقعے سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ایک ناچیز بندہ جب تسلیم و رضا کی کیفیات سے سرشار ہوجاتا ہے، جب وہ اپنے پورے وجود کو اللہ کے حوالے کردیتا ہے، جب وہ خدا کے ایک ادنی اشارے پر اپنی بڑی سے بڑی متاع قربان کردینے کے لیے تیار ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی جان کتنی قیمتی ہوجاتی ہے۔ وہ کس طرح زندہ جاوید اور لافانی ہوجاتا ہے۔

غور کیجیے! حضرت اسماعیل نے جب اپنی جان اللہ کے سپرد کردی تو اللہ کی نگاہ میں ان کی جان کی کیا قیمت قرار پائی؟ اس وقت سے لے کر آج تک جتنی قربانیاں ہوتی آئی ہیں، اور قیامت تک جتنی قربانیاں ہوں گی، وہ سب اسی ایک جان کا فدیہ ہیں۔

کچھ غور کیا آپ نے؟ ہر سال اس زمین پر جو کروڑوں قربانیاں ہوتی ہیں۔ ہزاروں سال سے جو کروڑوں قربانیاں ہوتی آئی ہیں اور قیامت تک ہر سال جو کروڑوں قربانیاں ہوتی رہیں گی، وہ سب اسی ایک مسلم جان کا فدیہ ہیں۔

اس جان کو یہ بلندی و فیروز مندی کہاں سے حاصل ہوئی؟ یہ صرف اس وجہ سے حاصل ہوئی کہ وہ اسلام کی لذت سے سرشار ہوگئی۔ وہ کامل تسلیم و رضا کا مجمسہ بن گئی، اس نے خدا کے لیے اطاعت و سپردگی کی ایک نہایت شاندار عملی مثال قائم کردی اور جب کوئی جان خدا کے حوالے کردی جاتی ہے تو وہ عام جانوں کی طرح کسی ایک فرد کی جان نہیں رہ جاتی، بلکہ وہ خود خدا کی جان بن جاتی ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے، بندہ مجھ سے برابر قریب ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں، جن سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں، جن سے وہ گرفت کرتا ہے اور میں اس کے پیر بن جاتا ہوں، جن سے وہ چلتا ہے۔

برادرانِ اسلام! کتنے خوش نصیب ہیں ہم کہ ہم ان ہی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کے نام لیوا ہیں، جو تسلیم و رضا کی تصویر بن کر زندئہ جاوید ہوگئے،جو ہمیشہ کے لیے عزت و سرفرازی کے تاجدار بن گئے۔

مگر آہ! ہم کس قدر بدنصیب بھی ہیں کہ ہم ان کے نام لیوا ہوتے ہوئے آج اس قدر ذلیل وپامال ہیں، انسانیت کے بازار میں آج ہماری کوئی قیمت نہیں، خدا کی نگاہ میں آج ہماری کوئی وقعت نہیں۔ آہ! آج ہماری حالت کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ہم ان بزرگوں کے پیروکار ہیں۔ بلاشبہ زبان سے دعوا کرنا آسان ہے، مگر کیا عملاً بھی ہمارے اور ان کے درمیان کوئی مشابہت پائی جاتی ہے۔ ان بزرگوں کی زندگیوں کا سب سے نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ خدا کی محبت کے جذبہ سے سرشار تھے، ان کے سینوں میں عشقِ الٰہی کی انگیٹھیاں دہک رہی تھیں، ان کی زندگیوں میں توبہ و انابت، تقوی وطہارت، خدا ترسی و پرہیزگاری اور طاعت و بندگی کی تمام رعنائیاں موجود تھیں۔ ان کا جینا اور مرنا خدا کے لیے تھا، ان کی اپنی کوئی خواہش اور اپنی کوئی آرزو نہ تھی، ان کا اپنا کوئی فکر اور اپنا کوئی رجحان نہ تھا، ان کی ساری امیدیں اور ساری تمنائیں رضائے الٰہی کے سانچے میں ڈھل گئی تھیں۔

انھوں نے محض خدا کی خوشنودی کے لیے اپنی پوری قوم اور پورے خاندان کی دشمنی مول لی، انھوں نے محض اپنے آقا کو خوش کرنے کے لیے آگ کے الاؤ میں کود جانا پسند کیا، انھوں نے محض خدا کی محبت میں اپنے گھر، در اور خویش و اقارب سب پر صبر کرلیا۔

انھوں نے اپنے بال بچوں کو لے جاکر ایک وادی غیر ذی زرع میں بسادیا، محض اس آرزو میں کہ وہ سچے نمازی اور دین کے سچے خادم بن سکیں۔

ربنا انی اسکنت من ذریتی بواد غیر ذی زرع عند بیتک المحرم ربنا لیقیموا الصلوٰۃ۔

انھوں نے خدا کے ایک اشارے پر اپنے محبوب ترین بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے آستینیں چڑھالیں، مختصر یہ کہ ان کی پوری زندگی ہی نماز یا پوری زندگی ہی عبادت بن کر رہ گئی تھی۔

ایک طرف توبہ و انابت اور عبدیت و بندگی کی یہ حسین ترین تصویریں ہیں، جو ہمارے ان بزرگوں کے ہاں نظر آتی ہیں، دوسری طرف انکار و اعراض و غفلت و مدہوشی کی وہ گھناؤنی تصویریں ہیں جو آج ہم پیش کررہے ہیں۔

آہ! جب ہم اپنے ان بزرگوں کی زندگیوں کو دیکھتے ہیں اور پھر ان کی روشنی میں اپنی زندگیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں منہ ڈھانپ ڈھانپ کر رونے کو جی چاہتا ہے۔

برادرانِ اسلام! مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ خوشی کے اس موقع پر میرے یہ پردرد نالے آپ کو ناگوار نہ گزر رہے ہوں،مگر آہ! میں کیا کروں؟ میں کیا کروں کہ میں اپنی طبیعت یا اپنی قسمت سے مجبور ہوں۔

آج کا دن جسے آپ خوشیوں کا دن کہتے ہیں، یہ دن آکر میری حسرتوں میں اور اضافہ کردیتا ہے، وہ دل جو حسرتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے، وہ آپ کے سامنے خوش کن باتیں کیونکر کرے؟

برادرانِ اسلام! اپنی ان ساری حسرتوں کے باوجود بہر حال عید کے اس متبرک موقع پر میں آپ کو دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو یہ دن بار بار نصیب کرے اور اس کی خوشیاں اور مسرتیں تا دیر قائم رکھے، مگر ساتھ ہی آپ پر یہ بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ عید کا یہ دن آپ کو سلانے کے لیے نہیں جگانے کے لیے آتا ہے، یہ آپ کو مدہوش کرنے کے لیے نہیں ہوش میں لانے کے لیے آتا ہے۔

آج کا دن رنگ رلیوں، میلوں، ٹھیلوں یا خوردونوش کا دن نہیں، آج کا دن وعدے اور معاہدے کا دن ہے، آج کا دن قول و قرار کا دن ہے، آج کا دن عہد و میثاق کا دن ہے، رب سے وعدہ کرنے اور اسے نبھانے کا دن ہے۔

یہ دن ہر سال آتا ہے اور بار بار آتا ہے تاکہ آپ کو اپنا وعدہ یاد دلائے اور آپ اپنے اس عہد بندگی کو یاد کریں جو اپنے رب سے آپ نے کیا ہے، آپ نے ابھی جو یہ نماز پڑھی ہے، یہ اسی عہد بندگی کی یاد دہانی یا اسی کی تجدید ہے، آپ نے ابھی اجتماعی طور سے دو رکعت نماز ادا کرکے زبان حال سے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ آپ صرف ایک خدا کے بندے ہیں، آپ کا یہ سر صرف اسی کے لیے ہے اس کی اطاعتیں اور اس کی نیاز مندیاں صرف اسی کے لیے ہیں، اب یہ سر صرف اسی کے آگے جھک سکتا ہے، نہ یہ کسی طاغوت کے آگے جھک سکتا ہے نہ اپنی جھوٹی خواہشات اور اپنے نفس کے آگے جھک سکتا ہے۔

اسی طرح ابھی آپ اپنے اپنے گھروں کو جاکر قربانیاں کریں گے اور اس طرح زبان حال سے گویا آپ یہ اعلان کریں گے کہ آپ بھی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے فدا کار اور ان کی ملت کے تابعدار ہیں، جس طرح حضرت ابراہیم خدا کے ایک اشارے پر اپنی سب سے قیمتی متاع قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے اور جس طرح حضرت اسماعیل نے اپنا سر پیش کردیا خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لیے، اسی طرح اب آپ بھی خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اپنی قیمتی سے قیمتی متاع قربان کردینے کے لیے تیار رہیں گے، حتی کہ دین کی راہ میں اپنا یہ سر بھی پیش کرنا پڑے تو اس سے بھی گریزنہیں کریں گے۔

چنانچہ قربانی کے موقع پر جو دعا ہم کو سکھائی گئی ہے، وہ واضح طور پر اسی حقیقت کی یاددہانی کرتی ہے۔ آپ جب قربانی کرنے چلتے ہیں تو یہی دعا تو پڑھتے ہیں۔ آپ جب یہ دعا پڑھتے ہیں تو واضح لفظوں میں اپنے سلسلے میں آپ یہ اعلان کرتے ہیں:

’’میں نے اپنا رخ کرلیا، اس ذات کی طرف جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے، میں پورے طور سے اسی کی طرف یکسو ہوتا ہوں، شرک کرنے والوں سے میرا کوئی رشتہ نہیں، بلاشبہ میری نماز اور میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں مجھے اسی کا حکم ملا ہے اور میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔‘‘

غور کیجیے! آپ اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کرکے اپنے سلسلے میں کتنا اہم اعلان کرتے ہیں، اسی لیے میںنے عرض کیا کہ آج کا دن خوردونوش کا دن نہیں ہے، غفلتوں اور سرمستیوں کا دن نہیں ہے، بلکہ یہ قول و قرار اور عہد و پیمان کا دن ہے، آج ہم اپنے رب سے عہد بھی کرتے ہیں اور لوگوں کے سامنے اس عہد کا اعلان بھی کرتے ہیں۔

مگر آہ! ہمارا یہ عہد و پیمان اور یہ قول و قرار کیا ہوتا ہے، بچوں کا ایک کھیل ہوتا ہے، ہمارے یہ وعدے اور معاہدے کیا ہوتے ہیں، بالکل بے معنیٰ سے الفاظ ہوتے ہیں، ہم ہر سال عیدالاضحی کے موقع پر اللہ تعالیٰ سے اس کی طاعت و بندگی کا عہد کرتے ہیں، واضح لفظوں میں یہ اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا جینا اور مرنا اللہ کے لیے اور صرف اللہ کے لیے ہوگا۔ مگر حالت یہ ہوتی ہے کہ ہماری زندگی خدا کے تصور سے بالکل خالی ہوتی ہے، نہ ہمارے اندر اس کا خوف ہوتا ہے، نہ اس کی محبت ہوتی ہے، نہ ہم اس کی نافرمانیوں سے ڈرتے ہیں، نہ جوش محبت میں اس کی طرف بڑھتے یا لپکتے ہیں۔

ہم قربانی کے جانورکو باریک بینی سے دیکھتے ہیں کہ اس کے اندر کہیں سے کوئی کمی یا کوئی عیب تو نہیں ہے؟ اس کے کان کٹے ہوئے تو نہیں ہیں، اس کے سینگ ٹوٹے ہوئے، یا مڑے ہوئے تو نہیں ہیں، اس کی چال میں کوئی نقص تو نہیں ہے؟

مگر آہ! ہم یہ نہیں دیکھتے کہ خود ہمارا اپنا کیا حال ہے؟ ہم کس جذبے اور کس نیت سے یہ قربانی کررہے ہیں؟ کچھ سوچ سمجھ کر کررہے ہیں یا یونہی بے سوچے سمجھے کررہے ہیں؟ خالص رضائے الٰہی کی خاطر کررہے ہیں یا نمود و نمائش کے جذبے سے کررہے ہیں، قربانی کی جو اصل روح اور اصل منشا ہے اس کے تحت کررہے ہیں؟ یا بس یونہی رسماً کررہے ہیں؟

یہی وجہ ہے کہ ہم عید تو ہر سال مناتے ہیں، مگر اس کی حقیقی برکتوں سے یکسر محروم رہتے ہیں، ہم قربانیاں تو ہر سال کرتے ہیں مگر سوائے گوشت اور ہڈی کے ہمارے حصہ میں کچھ نہیں آتا۔

آہ! میرے بھائیو! آپ جانوروں کو کیا دیکھتے ہیں؟ جانوروں سے پہلے خود اپنے آپ کو دیکھیے۔ اپنے دلوں اور اپنے ذہنوں کو ٹٹولیے، اپنی نیتوں اور اپنے ارادوں کا جائزہ لیجیے۔آپ دیکھئے کہ آپ کے دلوں میں تقویٰ ہے یا نہیں ، کیونکہ اصل چیز جو خدا کو مطلوب ہے وہ یہی تقویٰ ہے۔

اگر آپ کے دل تقویٰ و خدا ترسی کی دولت سے مالا مال ہیں تو آپ یقین جانیے کہ آپ کی قربانیاں قبول ہوں گی اور قربانی کی جو حقیقی برکتیں ہیں وہ آپ کو حاصل ہوں گی لیکن اگر آپ کے دل تقویٰ و خداترسی سے خالی ہیں تو آپ کا جانور چاہے کتنا ہی تیار ہو، وہ کتنا ہی تندرست اور کتنا ہی شاندار ہو، سب بیکار ہے، کیونکہ خدائے تعالیٰ کے ہاں گوشت اور خون نہیں پہنچتا۔ بلکہ آپ کا تقویٰ اور دلوں کا جذبہ پہنچتا ہے۔

لن ینال اللّٰہ لحومہا ولادماء ہا ولکٰن ینالہ التقویٰ منکم۔

آہ! اگر مسلمان اپنی غفلتوں سے باز آجائیں، وہ عیدالاضحی کے ساتھ مذاق کرنا چھوڑدیں، وہ عیدالاضحی کی غایت اور اس کی روح کو سمجھ لیں، اس کی منشا اور اس کے پیغام کو ذہن نشین کرلیں تو آج سے ان کی تاریخ کا نیا باب شروع ہوجائے، آج سے ان کے لیل و نہار تبدیل ہوجائیں آج سے انہیں وہی عزتیں اور وہی سرفرازیاں حاصل ہوئی، جو کبھی ان کے بزرگ آباء کو حاصل تھیں۔

مسلمانو!… مسلمانو!… مسلمانو!… یاد رکھو، تم اس دنیا میں عزت کے لیے بھیجے گئے ہو، ذلت کے لیے نہیں، حکمرانی کے لیے بھیجے گئے ہو، محکومی کے لیے نہیں، غلبہ وکامرانی کے لیے بھیجے گئے ہو، ناکامی و نامرادی کے لیے نہیں، ترقی و سربلندی کے لیے بھیجے گئے ہو، پستی و زبوں حالی کے لیے نہیں۔

شرط صرف یہ ہے کہ تم اپنی جگہ پر آجاؤ اپنی حیثیت اور اپنے منصب کو پہچان لو، تم ایک خدا کے بندے ہو اور واقعی تم ایک خدا کے بندے بن جاؤ۔ تم سنت ابراہیمی کے علم بردار ہو اور واقعی تم سنت ابراہیمی کے علمبردار بن جاؤ۔ تم قربانی کرتے وقت اپنی زبان سے کہتے ہو کہ میری نماز اور میری قربانی اللہ رب العالمین کے لیے ہے، تو تم واقعی طور سے اس کا عملی ثبوت فراہم کرو۔ تمہاری طاعتیں اور تمہاری نیاز مندیاں واقعی خدا کے لیے اور صرف خدا کے لیے ہوں، تم جانوروں کی گردن پر چھری چلانے سے پہلے یہ کہتے ہو کہ میرا مرنا اور میرا جینا صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہوگا۔

ان صلاتی و نسکی ومحیای و مماتی للّٰہ رب العالمین۔

تو واقعی صرف اللہ رب العالمین کے لیے تم مرنا اور جینا سیکھ لو، اس کے بعد یکھو کہ ہمیں دنیا کی امامت اور قوموں کی سیادت حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔

یہ سورج جو تمہارے سروں پر چمک رہا ہے اور اس شان سے پورے عالم میں اپنی روشن کرنیں بکھیر رہا ہے، کیا تم جانتے ہو کہ اس کی اس شان و شوکت اور اس کی ان تابانیوں کا راز کیا ہے؟ اس کی شان و شوکت اور اس کی تابانیوں کا راز صرف یہ ہے کہ وہ اپنے مالک اور اپنے آقا کے بنائے ہوئے نظام اور اس کے ضابطے کا پابند ہے، اس کے آقا نے اس کے لیے جو دائرہ متعین کردیا ہے وہ اسی دائرے میں گردش کرتا ہے ، اس کے طلوع و غروب کے لیے جو اوقات مقرر کردیے ہیں، انہی اوقات میں وہ طلوع و غروب ہوتا ہے اور اگر آج وہ اپنے محور کو چھوڑ دے، اگر آج وہ اپنے دائرے سے باہر آجائے۔ اس کے خدا نے اس کے لیے جو ضابطہ بنایا ہے، اس ضابطہ سے اگر آج وہ آزاد ہوجائے تو یقین مانو وہ دیکھتے دیکھتے سورج کے بجائے راکھ کا ایک ڈھیر ہوجائے۔

یہ کوئی خواب و خیال کی باتیں نہیں ہم پر ایک دور ایسا گزر بھی چکا ہے جب ہم خدا کے بندے بن کر صدیوں اس عالم میں سورج کی طرح چمکتے رہے ہیں، ہم اس کے دین کے تابع ہوکر قرنہا قرن تک ساری دنیا پر حکومت کرتے رہے ہیں۔

یہ عید ہمیں اسی گزرے ہوئے عہد کی یاددلاتی ہے، یہ ہمیں اسی دور سعادت کی طرف لوٹانا چاہتی ہے۔ تو ہے کوئی جو اس کے آواز پر کان دھرے؟ہے کوئی جو اس کے اس پیغام پر عمل کرے؟ اور روٹھی ہوئی بہاروں کو پھر سے اپنے چمن میں واپس بلانے کی سعی کرے؟

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146