اسلام ہمیں افراط و تفریط سے ہٹ کر ایک معتدل مزاج کی تعلیم دیتا ہے۔ جو کہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ خوشی کی موقع پر خوشی مناؤ۔ لیکن حدِ اعتدال سے تجاوز نہ کرو۔ کیونکہ اکثر ایساہوتا ہے کہ خوشی کے وقت ہی انسان حد سے تجاوز کرجاتا ہے اور اللہ کی حدود کو پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ مسلمان تہوار کیسے منائیں؟ اللہ کے رسول ﷺ نے اس معاملے میں ہماری بہترین رہنمائی کی ہے۔ ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ تہوار میں بندہ مومن اللہ کا شکر بجالائے اور اس کی حمدو ثناء کرے۔ خوشی کے موقع پر بھی اللہ سے غافل نہ رہنے کی تعلیم دی گئی ہے اور یہی اللہ کا ذکر بندہ مومن کو گناہ کی طرف بڑھنے سے روکتا اور اس کی حدود کی پابندی پر اکساتا ہے۔ اسلام میں صرف دو تہوار ہیں ایک عیدالفطر اور ایک عیدالاضحی۔
نبی ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو فرمایا تم سال میں دو دن خوشیاں مناتے تھے۔ اب اللہ نے تم کو اس سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں۔ (عیدالفطر اور عیدالاضحی) (بخاری)۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم رمضان بہت اہتمام سے گزارتے ہیں، نمازوں کی فکر کرتے ہیں، تلاوتِ قرآن کی، انفاق کی بلکہ تہجد کی بھی پابندی کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی رمضان کی آخری تاریخیں آتی ہیں خصوصاً ۲۸، ۲۹،۳۰ آخری وقت ہم غفلت برت جاتے ہیں۔ جبکہ ابھی طاق رات باقی ہوتی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ ہزار راتوں سے افضل ہے۔ دوسری اہم بات ہم عید کی تیاری میں اتنے منہمک ہوجاتے ہیں کہ عبادات کو بھی پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ چاند رات پوری عید کی تیاریوں میں ایسے گزرتی ہے کہ فجر کی نماز تک چھوٹ جاتی ہے۔ ابنِ ماجہ کی حدیث ہے، آپ ﷺ کا ارشاد ہے جو دونوں عیدوں کی شب قیام کرے گا نیک نیتی اور اخلاص سے، اس کا دل اس وقت نہیں مرے گا جب اوروں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔ مختلف احادیث میں اس کو لیلۃ الجائزہ کا نام دیا گیا ہے۔
عیدکے دن عید کی نماز سے پہلے فطرہ ادا کرنا ضروری ہے اور تمام افرادِ خانہ کی جانب سے دیا جانا چاہیے، چاہے ایک دن چند گھنٹے پہلے ہی بچے کی ولادت ہوئی ہو۔ صدقۂ فطر فرض ہے اور یہ اس لیے ہے کہ روزے کی حالت میں سرزد ہونے والے گناہوں سے خود کو پاک کرنا ہے۔ اللہ کے رسول نے تاکید فرمائی ہے کہ یہ عمل عید کی نماز سے بہرحال پہلے انجام دے دیا جائے۔
عید کی نماز
عیدالفطرکی نماز کے لیے جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز کھانا سنت ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ عید کے دن کھجوریں کھائے بغیر عیدگاہ کی طرف نہیں جاتے تھے۔ اور نبی اکرم ﷺ کھجوریں طاق کھاتے تھے۔ (بخاری) اکثر لوگ لا علمی کی وجہ سے عید کے دن بھی عید کی نماز تک کچھ کھاتے پیتے نہیں ہیں وہ اسے روزہ کہتے ہیں اور اسے باعثِ اجر و ثواب سمجھتے ہیں جبکہ یہ غلط ہے اور سنت سے اس طرح کی کوئی بات ثابت نہیں ہے۔ اگر کھجوریں نہیں ہیں، تو کوئی بھی میٹھی چیز کھاکر عیدگاہ کی طرف جایا جاسکتا ہے۔عیدگاہ کی طرف پیدل جانا سنت ہے لیکن سواری پر بھی جایا جاسکتا ہے۔ عیدگاہ جانے اور آنے کاراستہ بدلنا سنت ہے یعنی ایک راستے سے جائے اور دوسرے راستے سے واپس آئے۔
نماز عید کے لیے خواتین کو بھی عیدگاہ جانا چاہیے۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ دونوں عیدوں کے دن ہم حیض والی اور پردہ نشین (یعنی تمام) عورتوں کو عیدگاہ میں لائیں تاکہ وہ مسلمانوں کے ساتھ نماز اور دعاؤں میں شرکت کریں البتہ حیض والی عورتیں نماز نہ پڑھیں۔ (بخاری و مسلم)دوسری حدیث میں یہ بات بھی ہے کہ جس کے پاس چادر نہ ہو وہ اپنی سہیلی سے چادر (برقع) مانگ لے لیکن عیدگاہ جائے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ عید کے دن اتنی تکان ہوجاتی ہے کہ اکثر لوگ نمازیں چھوڑ دیتے ہیں یا عملاً یوں سمجھنے لگتے ہیں کہ اب رمضان ختم اس لیے اب عبادات اور دوسری تمام نیکیوں کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ مومن ہر حال میں مومن ہی رہتا ہے۔ موسموں کے اثرات کام کی زیادتی اس پر کوئی اثر نہیں ڈالتی۔ وہ اللہ کا مطیع و فرمانبردار رہتا ہے۔
اکثر لوگ عید کے دن فجر اور ظہر کی نماز چھوڑ دیتے ہیں۔ خواتین بھی اور مرد حضرات بھی چاند رات شیر خورمے کی تیاری اور گھر کی صفائی میں اتنے تھک جاتے ہیں کہ ایک فرض عبادت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ جب تک چاند رات کو شاپنگ نہ کی جائے عید کا لطف ہی نہیں آتا۔ جب کہ اس دن چاند دیکھ کر دعاکرنی چاہیے۔ اس رات بھی عبادت کی جائے۔ تہجد کی جو عادت رمضان میں ڈالی تھی چاند رات اورآئندہ بھی اس کی پابندی کی جائے۔ رمضان کا مقصد تو یہی تھا نہ کہ تقویٰ کی آبیاری ہو۔ اللہ سے ڈر اور اس کی قربت پیدا ہو۔ جب عید کے دن کی ہی فرض نماز ترک کردی تو نتیجہ یہی رہا کہ تقویٰ پیدا ہی نہیں ہوا۔
کچھ لوگ عید کے دن غیر مسلموں کی طرح لہو و لعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ عید کے دن وہ ہر طرح کی تفریح کو جائز سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ نوجوان بچے اپنی عیدی اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ تھیٹر میں جاکر فلمیں تک دیکھی جاتی ہیں۔ جب کہ اس طرح کے کام گناہ کے کام ہیں۔ ان سے ہمیں بچنا چاہیے۔ خاص طور سے والدین اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ مسلمانوں کے تہوار غیر مسلموں سے جدا ہوتے ہیں اور ہمارا تہوار منانے کا تصور بھی مختلف ہے۔ مسلمان ہر حال میں اللہ کا بندہ ہوتا ہے۔ حد سے تجاوز نہیں کرتا۔ خوشیاں منانا الگ ہے اور اللہ کی حدود کو پھلانگنا الگ۔عید کے دن خوشی منانا پسندیدہ ہے۔ عید کے دن آپس میں ملنا ملانا اور ایک دوسرے سے محبت کا اظہار آپس کے تعلقات کو اور مضبوط کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے عید کے دن عائشہ رضی اللہ عنہا کو حبشی لوگوں کے کرتب دکھائے جو حبشی لوگ نیزہ بازی اور تلوار زنی کے میدان میں دکھا رہے تھے۔ وہ آپ ﷺ کے پیچھے سے انہیں دیکھ رہی تھیں۔ (بخاری)
عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ عید کا دن تھا کچھ لونڈیاں بیٹھی دف بجارہی تھیں … ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا نبیﷺ کے گھر میں یہ گانا بجانا؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ابوبکر رہنے دو ہر قوم کے لیے عید کا ایک دن ہوتا ہے اور آج ہماری عید کا دن ہے۔ (رواہ البخاری)
مسلمان اگر سنت کی پیروی کرتے ہوئے عید منائیں اور جائز حدود میں رہ کر منائیں تو انشاء اللہ صحیح مسرت بھی حاصل کرسکیں گے اور ثواب کے بھی مستحق ہوں گے۔ عید کے بعد شوال کے مہینے میں جو شخص چھ روزے رکھ لے گا اسے اللہ تعالیٰ سال بھر کے روزوں کا ثواب دے گا۔ (مسلم) اور خواتین کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے قضا روزے جتنی جلدی ممکن ہو رکھ لیں۔