عیدالاضحی کے معنی ’’قربانی کی عید‘‘ کے ہیں۔ اللہ کو خوش کرنے کے لیے ہر اُس چیز کی قربانی پیش کرنا جو خدا کی محبت میں رکاوٹ بنے۔ ’حق‘ سامنے آنے کے بعد اُسے قبول کرلینا، حق کو حق کہنے اور اس پر عمل کرنے اگر ہمارا نفس روکے تو اسے ٹھوکر ماردینا، اپنی خواہشات کو دبادینا، اپنے من کو مارنا،یہ بہت بڑی قربانی ہے۔
غلط عقیدے، باپ دادا کے زمانے کی بری رسمیں، ذات برادری کے تعلقات، دھن دولت، وطن، بیوی اور بیٹے کی محبت، یہ سب حق کی راہ میں اگر رکاوٹ بنتی ہوں تو ان سب کو ٹھوکر ماردینا آسان کام نہیں ہے۔ ان ساری قربانیوں کی مثال اگر کوئی پورے طور پر کسی شخصیت میں دیکھنا چاہے تو وہ اللہ کے نبیوں میں دیکھے، خصوصیت سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حالات میں ہمیں اس طرح کی ساری قربانیوں کی پوری تصویر ملتی ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جس دن ’حق‘ واضح ہوا۔ آپؑ نے بڑھ کر اسے قبول کرلیا۔ صرف قبول ہی نہیں کرلیا… باپ، ماں، بھائی، بیوی، برادری، بستی، راجہ، پرجا، سب کو اس کی تلقین بھی کرنے لگے۔ باپ نے ناراض ہوکر گھر سے نکال دیا۔ برادری نے اپنے سماج سے خارج کردیا۔ آپؑ کی ہنسی اڑائی گئی۔ طرح طرح سے ستایا گیا۔ حتیٰ کہ قوم نے آگ میں جھونک دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سب گوارا کرلیا لیکن جو حق سامنے آچکا تھا اس سے منھ نہ موڑا۔ اس کے بعد مادرِ وطن کی قربانی کا نمبر آیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ قربانی بھی دینی پڑی۔ آپؑ نے وطن سے ہجرت کی۔ ایک بیوی اور بھتیجے کے ساتھ (جو آپؑ پر ایمان لاچکے تھے) نہ جانے کہا ںکہاں کی خاک چھانی۔ جوانی سے بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھا۔ اولاد کی تمنا پیدا ہوئی۔ اللہ سے دعا کی کہ پروردگار! میرے بعد اس مشن کو چلانے کے لیے جانشین عطا فرما۔ دعا قبول ہوئی۔ اللہ نے ایک بیوی اور عطا فرمائی۔ دوسری بیوی سے حضرت اسماعیلؑ جیسا فرزند ارجمند عطا کیا۔بیٹا ہونہار تھا۔ باپ کی آنکھ کا تارا بن گیا۔
اچانک ایک کٹھن قربانی پیش کرنی پڑی۔ حکم ہوا کہ اپنی سب سے زیادہ محبوب شے کی قربانی کرو۔ آنحضرتؑ نے غور کیا تو سب سے پیاری شے وہی اکلوتا بیٹا اسماعیلؑ دکھائی دیا۔ اس کی قربانی دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ قریب تھا کہ اپنے ہاتھ سے بیٹے کو قربان کردیں کہ اوپر سے کامیابی کا سرٹیفیکٹ آگیا۔ ابراہیم! تم پاس ہوگئے۔ بیٹے کو ذبح کرنے کی ضرورت نہیں۔ لو! اس کے بدلے یہ مینڈھا ذبح کردو۔
آج ہم عیدالاضحی کے دنوں میں اس بدلے کے مینڈھے کی قسم کے چند جانوروں کی قربانی کرکے سنتِ ابراہیمی تو ادا کرتے ہیں لیکن ہم نے دل سے ان تمام قربانیوں کو بھلا دیا ہے جو اس عظیم المرتبت رسول نے پیش کی تھیں جس کی سنت کے طور پر ہم یہ تیوہار مناتے ہیں۔ اللہ تو یہ فرماتا ہے کہ اسے گوشت اور خون نہیں پہنچتا ہے بلکہ وہ تقویٰ پہنچتا ہے جس کا تعلق تمہارے دل سے ہے، جو اس قربانی کی روح ہے۔ جس شخص نے حج بھی کرلیا، کعبے کی زیارت بھی کرلی، سارے مناسک حج ادا کیے، عرفات گیا، منیٰ گیا، رمی جمرات بھی کی، طواف بھی کیا، حجرِ اسود کو بوسہ بھی دیا، اس کے بعد واپس آیا لیکن اس کے اندر وہ جذبۂ ابراہیمی نہ ابھرا تو وہ اپنی جگہ خوش ہولے کہ حاجی ہوگیا لیکن اسے یاد رکھنا چاہیے کہ اسے حجِ مبرور حاصل نہیں ہوا یعنی وہ حج جو اللہ کو پسند ہے۔
اللہ جس حج کو پسند کرتا ہے وہ وہی ہے جو حاجی مکہ سے واپس آکر عمر بھر نبھائے۔ وہ اللہ کی مرضی پر چلنے کے لیے بے قرار رہے، چاہے اس کے گھر والے اس کے دشمن ہوجائیں، چاہے صاحبانِ اقتدار اس کا جینا دوبھر کردیں، چاہے بستی والے اسے شہر بدر کردیں۔ وہ اللہ کے حکم پر عمل کرتا رہے اور دنیا کے سارے طاغوتوں کا انکار کرتا رہے۔ دنیا کے سارے بناؤٹی خداؤں سے لڑکر جب وہ نکلتا ہے تو اللہ اسے مسلم کے لقب سے پکارتا ہے جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مسلم کہہ کر پکارا۔ اللہ تعالیٰ یہی توفیق ہم کو بھی دے۔
——