اللہ تعالی نے عید کو ایک تحفے کے طور پر ہمیں عطا کیاہے۔ عید اس نیکی کا صلہ ہے جو خدا کے نیک بندے رمضان المباکر میں اپنے مالک حقیقی کو راضی کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ ماہ رمضان ہمارے لیے بہت ہی بابرکت اور مبارک مہینہ ہے۔ اسی مبارک مہینے میں قرآن جیسی عظیم کتاب کا نزول ہوا، کفر کے خلاف پہلی جنگ لڑی گئی۔ یہی وہ مہینہ ہے جس میں ایک نیکی کا ثواب بڑھ کر ستر گنا ہوجاتا ہے۔ یہ مہینہ اللہ سے قربت اختیار کرنے کا ہے۔
ویسے تو لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی تہوار منایا کرتے تھے لیکن ان کے منانے کا انداز غیر سنجیدہ، غیر اخلاقی اور مشرکانہ تھا۔ جوا، شراب نوشی ،رقص و موسیقی کی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔اسلام کیوں کہ بداخلاقی، برائی اور شرک کو پسند نہیں کرتا اس لیے اس نے تہواروں کو منانے کا ایک باوقار اور بااخلاق طریقہ انسانوں کو بتایا۔
چونکہ عید ہمارے لیے خوشی کا تہوار ہے اس لیے ہمیں حکم دیا گیا کہ اپنی خوشی میں دوسرے دینی بھائیوں کو بھی شریک رکھا جائے۔ اسی لیے اللہ نے ہر خوشحال شخص پر فطرہ کی ادائیگی کو عید کی نماز سے پہلے پہلے ضروری قرار دیا تاکہ کوئی تنگ دست اس خوشی سے محروم نہ رہ سکے اور اس ماہ میں صدقات و خیرات کا خوب خوب اہتمام کرنے کی تلقین کی گئی۔ عید چونکہ اللہ کی طرف سے دیا ہوا انعام ہے، اس لیے ہم اس مالک کا شکر ادا کریں جس نے ہمیں ایک عظیم فریضے کے ادائیگی سے نوازا اور ایسا مہینہ عطا فرمایا جس میں پورے سال کی کامیابی کی ضمانت دی گئی۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ جس کا رمضان نافرمانیوں سے محفوظ ہوگا تو اس کا پورا سال نافرمانیوں سے محفوظ ہوگا۔ اس بابرکت ماہ کے اختتام پر ہم اپنا جائزہ لیں۔
عید خوشی کا دن ہے چاند نظر آتے ہی ہم عید کی تیاریوں میں منہمک ہوجاتے ہیں جبکہ وہ رات تو مغفرت کی ہوتی ہے، انعام و اکرام کی ہوتی ہے اس رات اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم سایہ فگن ہوتا ہے، بندوں کو پکار پکار کر رحمتِ حق کے زیر سایہ آنے کی دعوت دیتا ہے۔ مگر افسوس کہ ہم اس رات کی فکر کرنے کے بجائے دنیاوی کاموں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ عورتیں بازاروں میں خریداری کرنے نکل جاتی ہیں۔ نوجوان اور ادھیڑ عمر لوگ رات بھر سڑکوں پر گھومتے نظر آتے ہیں۔ اور بہت بے دردی سے اس پاکیزہ رات کے تقدس کو پامال کیا جاتا ہے۔ اوریہ سمجھا جاتا ہے کہ اب تو روزوں سے آزادی مل گئی اب دن میں خوب کھائیں گے۔ بے مقصد سی زندگی کو تھوڑا قرار آیا تھا اب پھر وہ اپنی روش پر آجائے گی۔ اگر عید کی خوشی اس جذبے کی عکاسی ہے تو سمجھنا چاہیے کہ ہم نے عید کی قدر کو نہیںپہچانا اور ہم نے عید کا حق نہیں ادا کیا۔ ہم تو اپنے نفس کے بندے اور خواہشات کے اسیر ہیں ہم خدا کے سامنے حاضر ہوں گے تو بڑے مفلس اور خالی ہاتھ ہوکر۔
عید کے دن بندہ مومن کا دل خدا کی حمد و ثنا اور اس کی کبریائی سے معمور ہوتا ہے اس کی زبان پر اللہ اکبر کا ورد ہوتا ہے۔ وہ زرق برق لباس پہن کر خود نمائی نہیںکرتا، اس کا امتیاز خاکساری ہے۔ اللہ کے بندوں کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی کا شیوہ ہے۔آج جبکہ عید کا تہوار ہمارے دروں پر دستک دے رہا ہے تو ہم بڑھ کر لبیک کہیں، دنیا کے تمام مسلمان اپنے دینی بھائیوں کی مدد کریں تاکہ وہ مغلوب نہیں بلکہ غالب قوم ہوکر پھر ابھریں اوردنیا پر چھا جائیں۔
عید دراصل کردار سازی اور حقوق انسانی کی ادائیگی کی دعوت دیتی ہے۔ اگر عید کی مسرتوں میں نادار بچوں اور بیواؤں و بیکسوں کی فریادیں ہمارے دل کے نہاں خانوں میںکوئی تلاطم برپا نہ کرسکیں تو ہماری یہ خوشیاں ہمارے ضمیر پر ایک بوجھ ہوں گی اور ہم عید کی سچی خوشی سے خود کو ہم کنار نہ کرسکیں گے۔