’’میں یہ ٹوپی نہیں، وہ پھولوں والی ٹوپی لوں گا۔‘‘
’’اچھا بھئی یہی لے لو۔‘‘ اور ابا جان نے پھولوں والی ٹوپی سعید کو خرید دی۔ وہاں سے اٹھے تو ہم سب جوتوں کی دکان پر گئے، وہاں بھی سعید نے نہ جانے کتنے جوڑے نکلوا کر ایک پسند کیا اور اسی پر اڑ گیا، ابا جان نے اس کو پسند کا جوتا بھی لے دیا۔
عید میں کئی دن باقی تھے۔ سعید کرتا، ٹوپی، رومال وغیرہ کے لیے ایک شور مچائے ہوئے تھا۔ لیکن جب اس کے لیے یہ سب کچھ آگیا اور اس نے دیکھ بھال کر خوشی خوشی رکھ بھی لیا تو دوسرے دن سے نہ جانے کیوں اداس رہنے لگا، میں نے اسے چپ چپ دیکھا تو امی جان سے ذکر کیا۔ انھوںنے ابا جان سے کہا۔ سب نے مل کر سوچا مگر کوئی نہ سمجھ سکا کہ سعید نے اپنی پسند کی چیزیں پانے پر کیوں چپ سادھ لی ہے اور کیوں اتنا اداس رہنے لگا ہے۔
ایک بار میں نے پوچھا بھی لیکن وہ کچھ نہ بولا۔ آخر ایک دن امی جان نے بہلا پھسلا کر پاس بٹھایا، بولیں ’’سعید میاں کی ٹوپی سب سے اچھی ہے، ہے نا سعید میاں!‘‘ لیکن سعید نے کوئی دلچسپی نہ لی۔
اب میں نے کہا: ’’جوتا بھی تو بھڑک دار ہے، اس میں موتی بھی تو ٹکے ہیں۔‘‘ میری بات سنی توکھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔
اب راشدہ باجی کی باری تھی، انھوں نے کہا:’’اورمیں نے سعید میاں کا رومال کیسا اچھا کاڑھا ہے، کیسے کیسے رنگ برنگے پھول بنائے ہیں۔‘‘
اس کے بعد ابا جان نے پھر کچھ کہا، پھر چھوٹی اپیا نے، پھر پھوپھی جان نے۔
سعید اس طرح کی باتوں سے ہمیشہ خوش ہوتا تھا اور سب سے زیادہ اپنی چیزوں کی تعریف کرتا تھا اور کسی کوہاتھ لگانے نہ دیتا تھا، لیکن آج پہلے تو سن کر اداس اداس ہنسی ہنسا پھر نہ جانے اسے کیا سوجھی، وہ اٹھا، جلدی جلدی گیا اور اپنا عید کا جوڑا لاکر امی جان کے آگے ڈال دیا اور بولا:
’’میں نہیں پہنتا یہ جوڑا۔‘‘ اور پھر رونے لگا۔
اب توہم سب کو بڑی پریشانی ہوئی۔ اس وقت خفگی کی کوئی بات بھی نہ تھی۔ چھوٹی اپیا نے بھی اسے نہ چھیڑا تھا، لیکن آخر کچھ نہ کچھ ہوا ہوگا۔ مجھ سے پوچھا گیا، باجی سے، اپیا سے سب سے اباجان نے پوچھا، کوئی کچھ نہ بتا سکا تو ابا جان نے پیار کے ساتھ کہا: ہم اس سے اچھا جوڑا سعید میاں کو بنوادیں گے۔
سعید کچھ کہتے کہتے رک گیا، ابا جان نے کچھ سوچ کر کہا: ’’ہاں بیٹے بتاؤنا، اس جوڑے کا کیا کروگے؟‘‘
سعید نے ابا جان کو دیکھا: ’’بتاؤں؟ اچھا نہیں بتاؤں گا۔‘‘
اب سب لوگ سمجھ گئے کہ بس اسی بات میں کوئی بات ہے، امی جان نے اسے چمکارا اور پھر پوچھا، ’’ہاں بیٹے! یہ جوڑا…‘‘ وہ پوری بات نہ کہہ سکی تھیں کہ سعید میاں بیچ ہی میں بول اٹھے:
’’امی! پھر یہ جوڑا راشد کو دے دوں؟‘‘
’’کون سے راشد کو؟‘‘ ابا جان نے پوچھا۔
’’ابا جان! میرا دوست راشد، وہ جو کل آیا تھا،میں نے اسے اپنی ٹوپی دکھائی، رومال دکھایا، کرتا دکھایا۔ وہ بیٹھا دیکھتا رہا، پھر میں نے اس سے پوچھا:
’’راشد تمہارا جوڑا کیسا بنا؟ میرے یہ پوچھنے پر وہ رونے لگا۔‘‘
’’اچھا یہ بات ہے۔‘‘ ہم لوگ سمجھ گئے۔ راشد بے چارہ یتیم بچہ، اس غریب کو کس نے جوڑا بنا کے دیا ہوگا، بس اسی کا اثر ہے سعید پر۔
پھر کیا تھا، ایک چھوٹے سے بچے کی اس ذرا سی بات کو ہم بڑوں نے بہت کچھ سمجھ لیا۔ پھر باجی نے، اپیا نے مل کر جلدی جلدی کرتا، رومال اور پائجامہ تیار کیا۔ اباجان ٹوپی اور جوتا لائے، پھر؟
پھر کچھ نہ پوچھیے سعید کی خوشی! عید میں جب راشد نے سعید میاں کے ساتھ جوڑا پہنا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سعید میاں کو جنت مل گئی اور سعید میاں ہی کو کیا ہمیں بھی عید کی سچی خوشی اس دن ہوئی۔ ہم سب نے سعید میاں کو خوب دعائیں دیں۔