عید کا انفرادی و اجتماعی پہلو
سمیہ تحریم
کچھ لمحے اور کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو خوشیوں سے بھرپور ہوتے ہیں۔ انسان ان لمحوں میں خوشی و مسرت کی ایک خاص کیفیت محسوس کرتا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اس دن کو اللہ اپنی رحمت خاص سے پرلطف بنا دیتا ہے۔ بس انسان پر منحصر ہے کہ وہ اس رحمت بھری خوشی کو کتنا اپنے دامن میں سمیٹے۔ کوئی بوند بھر لیتا ہے، کوئی سیراب ہوجاتا ہے اور کوئی تشنہ لب ہی رہ جاتا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ عید الفطر نام میں ہی اللہ نے خوشی و راحت کا خزانہ رکھا ہے۔ یہ اللہ کی طرف سے انعام و اکرام کا ذریعہ ہے کہ عید الفطر کی رات ارشادِ خدا وندی ہوتا ہے: ’’اے میرے بندو مجھ سے مانگو، میری عزت اور میرے جلال کی قسم آج کے دن جو سوال کرے گا، عطا کروں گا۔ تم نے مجھے راضی کرلیا اور میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘
اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ عید اس طرح منائیں کہ یہ ہماری چند گھنٹوں کی مسرت سے ہٹ کر ایک مسلسل خوشی اور طمانیت میں تبدیل ہوجائے تو ہمیں دو طرح سے اپنا لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ ایک انفرادی سطح پر خود کے لیے اور دوسرا مخلوقِ خداوندی کے لیے۔
عید در اصل خوشی کی وہ کیفیت ہے جو بندہ اس وقت محسوس کرتا ہے کہ جب برکتوں اور فضیلتوں سے بھرپور اس ماہ میں روزے کی ظاہری اور روحانی تقاضوں کو ایمانی کیفیت سے سرشار ہوکر پورا کرتے ہوئے اختتامِ رمضان تک قرآنی تعلیمات کا ایک بڑا حصہ عمل میں لاتا ہے۔ جھوٹ، غیبت، جھگڑا، چوری، کینہ اور غصے جیسی بے شمار روحانی بیماریوں سے روزے کی حالت میں بچتا ہے۔۔۔۔۔ ذکر، نماز اور قربِ الٰہی کے لیے ایک اجتماعی کیفیت اور ایک اجتماعی ماحول پیدا ہونے کے سبب اپناتا ہے۔ ضبط نفس کی راہ پر چلتا ہے اور روزے کی حالت میں ضرورت مندوں، غریبوں اور بھوکوں کی کیفیات کو محسوس کرتا۔ اور صبر و شکر پروان چڑھاتا ہے۔ در اصل عید کا دن اسی خوشی کا دن ہے کہ ہم نے اس ماہ کو پایا اور اسے اپنے نجات کا ذریعہ بنا لیا۔ بہرحال بندہ مومن کی خوشی اور خواہش نفس کے غلام کی خوشی کا فرق واضح سمجھ میں آتا ہے۔ اور یہی فرق تو ہمیں اللہ کا محبوب بندہ بنا دیتا ہے۔
عید اس عزم کے ساتھ اور اس طرح سے منائیں کہ یہ خوشی کا دن ہے اور اللہ تعالیٰ نے عنایتوں کا اور برکتوں کا معاملہ کرتے ہوئے یہ مقدس مہینہ ہمیں دیا تھا کہ ہم تقویٰ کی صفت اپنا سکیں اور اب ہمیں آگے آنے والے بقیہ تمام دنوں میں ان سب چیزوں کو عملی طور پر مضبوطی سے تھامے رکھنا ہے جو ہم نے رمضان المبارک کے مہینے میں اختیار کی تھیں۔
دوسرا حصہ ہے مخلوقِ خداوندی کے لیے۔ بندہ مومن کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی خوشیوں میں بھی خود غرض نہیں ہوتا۔ بلکہ خوشی کے مواقع پر غریبوں، یتیموں، کمزوروں اور بے سہارا لوگوں کو بھی شامل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ عظمت کا مقام یہ ہے کہ آدمی اپنی خوشیوں میں شریک کرنے کے لیے سماج کے کمزور اور محروم طبقے کو بھی تلاش کرے۔ عید ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ ہم عید کی خوشیوں کو زیادہ سے زیادہ اجتماعی بنائیں۔ چناں چہ ہمیں صدقہ فطر کی جہاں ہدایت دی گئی ہے وہیں رمضان المبارک کے مہینے میں کثرتِ انفاق کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ یہ اسلام کی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کی انفرادیت ہے۔ اس موقعے پر یہ کہنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عید کے دن ہم اپنے دل کی کیفیت کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ خوشی کے اس موقعے پر کیا ہمارا کردار ہمارا عمل اور ہمارے جذبات نبی کریمؐ اور آپ کے ساتھیوں سے میل کھاتے ہیں۔ ان کا معاملہ یہ ہوتا تھا کہ وہ اپنی تنگ دستی اور اشیائے ضروریات کی قلت کے باوجود ضرورت مندوں، مانگنے والوں اور مجبوروں کو اپنی خوشی میں شامل کرنے کے غرض سے دوسروں کو خود پر ترجیح دیتے تھے اور اس طرح ایک منفرد قسم کی خوشی حاصل کرتے تھے۔ یہ اس بات کا بھی اظہا رہے کہ ہمارے دل پر خواہشات اور نفسانی جذبات کا غلبہ نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات پر عمل اور ان کی خوشنودی مطلوب ہے۔
جو لوگ خوشیوں کو صرف اپنے لیے خاص کرنا چاہتے ہیں ان کی خوشیاں جلد زائل ہو جاتی ہیں اور جو لوگ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شامل کرتے ہیں ان کی خوشیاں دیرپا اور دائمی ہوتی ہیں۔ ہم بھی اپنی خوشیوں کو دائمی اور دیرپا بنا سکتے ہیں، غریبوں اور بے سہارا لوگوں کو اس میں شامل کرکے۔lll
اہل ایمان کے لیے انعام
جلیلہ اقبال شیرازی
عید الفطر اسلام کا ایک ایسا عظیم تہوار ہے جس کے نام سے ہی خوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اور کیوں نہ ہو جب کہ عید پورے سال میں ایک ہی بار آتی ہے۔ اور وہ بھی ماہِ مقدس کے تیس روزے رکھنے کے بعد۔ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ جب محنت و مشقت کرتا ہے تو اسے انعام سے نوازا جائے۔ چناں چہ جب مسلمانوں نے رمضان کے پورے روزے رکھنے کے ساتھ اپنا زیادہ تر وقت عبادت و ریاضت میں گزارا تو انہیں بھی انعام ملنا لازمی ہے۔ اسی انعام کے طور پر اللہ رب العزت نے ہم مسلمانوں کو یہ عید کا دن عطا فرمایا ہے۔ یہ عید ہمارے لیے اللہ کی طرف سے دنیوی انعام ہے اور اخروی انعام تو جنت کی صورت میں ہمیں ملنے والا ہے۔
بلاشبہ عید کی حیثیت ایک تہوار کی ہے لیکن ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ جب اسلام کا کوئی عمل عبادت اور دور رَس مقاصد سے خالی نہیں ہوتا تو یہ عید الفطر ہمارے لیے صرف خوشی کا ذریعہ کیسے ہوسکتی ہے؟ اگر حقیقت میں عید صرف خوشیاں منانے کا موقع ہوتا تو اس کا آغاز عبادت سے نہ ہوتا۔
عید الفطرکا ایک خاص عمل عید گاہ جاتے وقت بلند آواز سے تکبیرات پڑھنا ہے۔ اسی طرح ایک راستے سے جانا اور دوسرے سے واپس آنا ہے۔ دراصل عیدگاہ بستی سے دور اسی لیے رکھی گئی ہے تاکہ پورا ماحول خدا کی کبریائی سے گونج اٹھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اس دن خوشیاں منائیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ ہمیں اچھا کھانے، اچھا پہننے اور سیر و تفریح کی بھی اجازت دیتا ہے۔ ساتھ ہی یہ حکم بھی اسلام ہمیں دیتا ہے کہ ہم اس عظیم تہوار کو انفرادی طور پر نہیں بلکہ اجتماعی طور پر منائیں اور اس کے مقاصد کا خیال رکھتے ہوئے اس خوشی میں سماج کے ہر فرد کو شامل کریں۔ غریبوں اور پریشان حال لوگوں کا خیال رکھیں۔ کوشش کی جائے کہ جیسی مسرت ہماری چہرے سے ظاہر ہو رہی ہے وہی مسرت دوسرے غریبوں اور مجبوروں کے چہرے سے بھی اس دن ظاہر ہو۔ یہی اس عظیم تہوار عید کا اصل مقصد ہے۔lll
عید کی حقیقی خوشی
ناز آفرین
عید کے معنی خوشی ،مسرت یا جشن کے ہیں اور فطر کے معنی روزہ کھولنے یا بانٹنے کے ہیں۔ عید ایک خوشی اور ایک تحفہ ہے جو اللہ نے تمام مسلمین کے لئے عنایت کیا ہے ۔لیکن عید کی حقیقی خوشی کے مستحق وہی ہو سکتے ہیں جنہوں نے پورے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان المبارک کے روزے پورے کئے۔ قرآن کریم کو اپنی عملی زندگی میں اتارا اور روحانی پاکیزگی اختیار کی ۔زکوٰۃ ادا کی۔ زکوٰۃ فرض ہے تو فطرہ واجب ہے۔ زکوٰۃ مال کو پاک کرتا ہے اور فطرہ انسانوں سے روزہ کے درمیان ہونے والی لغزشوں سے انہیں پاک کرتا ہے اور رمضان المبارک میں زکوٰۃ و فطرہ نکالنے کے پیچھے یہ حکمت ہے کہ غریب و مسکین بھی اس خوشی میں شامل ہو سکیں ساتھ ہی رمضان کے پاک مہینے میں ہر نیکی کا اجر بڑھا دیا جاتا ہے۔ لہٰذا جنھوں نے نیم شب میں خداوندِ کریم سے اپنی گناہوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کیا، دعا ، اذکار،معافی واستغفار کے ذریعے خدا کو منانے کی کوشش کی ۔ دن کا آرام اور راتوں کا سکون اعتکاف کی نذر کیا۔ طاق راتوں کی تلاش میں اپنی نیندیں گنوائیں ۔ جنھوں نے اپنے نفس کا محاسبہ کیا اور حصول ِ تقویٰ تک رسائی حاصل کی وہی اس خوشی و مسرت کے حق دار ہیں۔
یہ بات بھی درست ہے کہ عید کے روز عمدہ لباس زیب تن کرنا چاہئے مگر ایسا نہیں ہے کہ نیا لباس ہی ضروری ہے۔عید تو رمضان میںعبادت و ریاضت میں وقت لگانے والوں کے لیے اللہ کا انعام ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے ارشاد کے مطابق جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اے میرے فرشتوں !اُس مزدور کی کیا جزا ہے جو اپنا کام مکمل کر دے؟ فرشتے عرض کرتے ہیں:اس کی جزا یہ ہے کی اس کو پورا اجر و ثواب عطا کیا جائے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے فرشتوں !میرے بندوں اور بندیوں نے اپنا فرض ادا کیا پھر وہ (نماز عید کی صورت میں) دعا کے لئے نکلے آتے ہیں مجھے میری عزت و جلال ،میرے کرم اور میرے بلند مرتبہ کی قسم میں ان کی دعائوں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر فرماتے ہیں بندوں تم گھروں کو لوٹ جائومیں نے تمھیںبخش دیا اور تمہارے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کر دیا ۔‘‘
قرآن مجید میں سورہ المائدہ کی آیت نمبر ۴۱۱ میں حضرت عیسیٰ ؑ کی ایک دعا کے حوالے سے عید کا ذکر موجود ہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ عیسیٰ ابن مریم ؑ نے عرض کیا:
’’ اے اللہ ہمارے پروردگار!ہم پر آسمان سے کھانے کا ایک خوان اتار دے اور اس طرح اسی کا اترنے کا دن ہمارے اگلے پچھلوں کے لئے (بطور عید ،یادگار)قرا ر پائے اور تیری طرف سے ایک نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو بہترین رزق عطا کرنے والا ہے ۔ اس سے اگلی آیت میں ارشاد ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ میں یہ خوان تم پر اتار تو دیتا ہوں ،مگر اس کے بعد جو کفر کرے تو میں اسے ایسا عذاب دوں گا جو سارے جہان والوں میں اور کسی کو نہیں دیا ہے ۔‘‘
کسی قوم کی خوشی اور مسرت کے دن کا قرآن نے عید کے عنوان سے ذکر نہیںکیا ہے ۔ آج پوری دنیا میں مسلمان بڑی دھوم دھام سے عید الفطر کا تہوار مناتے ہیں ۔جہاں خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اسلامی و اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کی جاتی ہے۔ ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم عید کے حق دار ہوں اور اللہ کی وعید سے توبہ و استغفار کریں۔lll
عید کی سچی خوشی
عید کی آمد آمد ہے، ہر کوئی اپنے طور سے عید کی تیاریوں میں مصروف ہے، خصوصاََ لڑکیاں اس کا بہت اہتمام کرتی ہیں۔ اچھی سے اچھی تیاری کے لیے وہ رمضان سے کافی پہلے ہی سے عید کی تیاریوں میں مشغول ہوجاتی ہیں۔ رمضان آتا ہے اور پھر انواع واقسام کے پکوانوں کے ذریعے سحری وافطار کے دسترخوان سجائے جانے لگتے ہیں، اسی گہاگہمی اور مصروفیات میں عید کا چاند نظر آجاتا ہے، ہر طرف خوشیوں کے رنگ بکھر جاتے ہیں، اور لوگوں کے ذہنوں میں اگلے دن کی پلاننگ شروع ہوجاتی ہے کہ کل کیا پہننا ہے، کیا پکانا ہے، کس سے ملنا ہے وغیرہ،اور یوں اچھے سے اچھا پہن کر اور انواع واقسام کے پکوان کے ذریعے عید کی خوشیاں منائی جاتیہیں۔
غور کیجیے! کیا عید کی سچی خوشی یہی ہے کہ اچھے سے اچھا کپڑا زیب تن کرلیا جائے، مہنگے سے مہنگے زیورات سے خود کو آراستہ کرلیا جائے، اور خوب جی بھر کر خوشیاں منالی جائیں۔
نہیں! بلکہ عیدکا دن انعام کا دن ہے۔ اللہ کی طرف سے بندوں کو انعام ملنے کا دن۔ ان احکام کی تعمیل کا صلہ ملنے کا دن، جن کا اللہ نے حکم دیا تھا۔جس طرح ایک طالب علم کو نتائج کے دن کا بڑی بے صبری سے انتظار ہوتا ہے، اسی طرح روزہ داروں کو عید کے دن کا انتظار ہوتا ہے۔ جس طرح نتائج کے دن ہر پرچہ لکھنے والے کو انعام نہیں دیا جاتا،بلکہ صرف انہیں دیا جاتا ہے جو اس کے حقدار ہوں، جنہوں نے اس انعام کو حاصل کرنے کے لیے دن رات جدوجہد کی ہو، سال بھر محنت کی ہو، اور امتحان کا پرچہ صحیح صحیح حل کیا ہو، اسی طرح رمضان بھی ایک امتحان ہے، اللہ اس مہینے میں اپنے بندوں کی ایمانی کیفیت کا امتحان لیتا ہے اور اس میں کامیاب ہونے والوں کو خاص انعامات سے نوازتا ہے۔ یہ انعام ان لوگوں کے لیے ہوگا جنہوں نے واقعی اس ماہ مبارک کا احترام کیا ہوگا، جنہوں نے اس کے فیوض وبرکات کو حاصل کرنے کے لیے دن ورات مشقت کی ہوگا، جنہوں نے صرف بھوک پیاس برداشت نہیں کی ہوگی بلکہ حقیقی معنوں میں اللہ کے احکام کی تعمیل کی ہوگی۔ جنہوں نے اپنی راتوں کو ذکر الہی سے معمور کیا ہوگا اور دن بھر اللہ کے احکام کی تعمیل میں مشغول رہے ہوں گے۔ جنہوں نے نیکی اور تقوی کی راہ اختیار کی ہوگی،اس مہینے نازل ہونے والی کتاب ’’قرآن مجید‘‘کے حقوق ادا کیے ہوںگے، روزوں کے مقصد کو سمجھا ہوگا، اور اس کے تقاضوں کو پورا کیا ہوگا۔
عید کی سچی خوشیوں کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں پورے رمضان محنت کرنی ہوگی۔ رمضان کے ہر لمحے سے خوشیوں کو کشید کرنا ہوگا۔ ضرورت ہے کہ رمضان کے قیمتی اوقات کو اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنائیں، نہ کہ اسے شاپنگ اور انواع واقسام کے دسترخوان سجانے میں لگادیں۔ lll