دیرہوگی نہیں دیر ہوچکی ہے ۔ اب توکل کاانتظار بھی خطرناک ہے وجود پر ہی خطرہ ہے۔ آدھی آبادی صرف لفظوں میں بچی ہے۔ مارچ ۲۰۰۱ء میں ہوئی مردم شماری میں آبادی سے تین کروڑ ۲۰ لاکھ عورتیں غائب ہیں۔ اترپردیش میں ۸۸ لاکھ عورتیں غائب ہیں۔یعنی لکھنؤ ، کانپور اور ہمیر پور کی آبادی کے برابر ۔ اگر یہ تینوں ضلع غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا۔ اس وقت تو یہ سناٹا نہیںرہے گا پھر عورتوں کے غائب ہونے پر خاموشی کیوں ہے؟
سائنسی حقائق کا کہنا ہے کہ مؤنث جنین مذکر جنین سے زیادہ صحت مند ہوتا ہے۔ فطری طریقے سے دونوں کو برابر کے مواقع ملیں تو دونوں کی تعداد برابر ہوگی یا پھر عورتوں کی تعداد ہی زیادہ ہوگی ۔ لیکن اعداد وشمار یہی کہتے ہیں کہ نظام قدرت سے چھیڑ چھاڑ ہورہی ہے۔ اب تو ڈیزائنر قمیص پینٹ کی طرح بچے بھی چنے جارہے ہیں ۔ ثبوت بھی ہے۔ پیدا ہونے سے چھ سال کے عمر کے بچوں کی شماری کی گئی۔ ۶۔۰ سال کی عمر کے اس گروپ میں ایک ہزار میں۹۴۵ بچیاں تھیں۔ ۲۰۰۱ء میں یہ۹۲۷ رہ گئیں یعنی تیرہ لاکھ بیٹیاں اس گروپ سے غائب کی گئی ہیں۔
ان میں ان علاقوں کا حال اور برا ہے جو ترقی کی مبینہ دوڑ میں آگے ہیں۔ اترپردیش کے لکھنؤ میں ۹۱۹ ، کانپور میں ۸۶۵ ، آگرہ میں ۸۴۹ ، علی گڑھ میں ۸۸۶ بیٹیاں باقی ہیں۔ ملکی سطح پر پنجاب، ہریانہ، گجرات ،مہاراشٹر میں جنسی تناسب کا بگاڑ سب سے زیادہ ہے۔
جب ہم اور گہرائی میں جاتے ہیں تو بے چاری بیٹیوں کی سسکیاں بھی بڑی مشکل سے سنائی پڑتی ہیں۔ شہروں ، تحصیلوں اورتعلقوں تک شماری کی گئی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ گائوں والے شہر کے مہذب تعلیم یافتہ طبقے سے کہیں بہتر ہیں۔ ترقی کے لئے کمیشن اور پریشد بنائی گئی ہیں ۔ یہ کس کی ترقی کریں گی۔ اس کا انسانی چہرہ کہاں ہے۔ اس ترقی کے مرکز میں صرف مرد ہوں گے۔ عورتیں نہیں ۔ کون سوچے گا۔ یہ اندھیرا صرف موم بتی جلانے سے جانے والا نہیں ہے۔ اور نہ ہی اس وقت کا انتظار ہے کہ مالی مدد ملے تو معاملہ اٹھایا جائے۔ وقت سیدھی کاروائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ تیزاور تیز۔