مسٹر شرما اور مسز شرما چوتھی منزل کے اس چھوٹے سے مکان میں بیٹھے شام کی چائے کاانتظار کررہے تھے۔ ملازم کچن میں تھا، ابھی صبح ہی یہ لوگ اس مکان میں منتقل ہوئے تھے جسے مقامی زبان میں ’برساتی‘ کہا جاتا ہے۔ تھوڑی دیر میں ملازم چائے لے آیا۔
’’راجیش صحیح کہہ رہاتھا…‘‘ مسز شرما بولیں، ’’… یہاں بہت کھلا کھلا سا لگ رہا ہے۔ سردیوں میں دھوپ اور گرمیوں کی رات میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا۔ راجیش ہم لوگوں کا کتنا خیال رکھتا ہے!‘‘
’’اکیلے راجیش کو کریڈٹ مت دو، بھئی! کملیش بھی اس منصوبے میں راجیش کے ساتھ تھا۔ ‘‘ مسٹر شرما نے بیوی کی اصلاح کی۔
’’ہاں ہاں … دونوں بیٹے بھگوان کی کرپا اور ہمارے سوبھاگیہ سے بہت ہی نیک ہیں ورنہ بوڑھے والدین کا اس زمانے میں اتنا خیال کون رکھتا ہے۔‘‘ مسز شرما بولیں۔
’’ہاںبھئی…‘‘ مسٹر شرما نے بیوی جیسے جوش کا ہی مظاہرہ کرتے ہوئے کہا: ’’بیٹوں نے صرف دھوپ اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کا ہی نہیں ہم لوگوں کے لیے بارش کی بوچھاروں کا بھی خیال رکھا ہے۔ برساتی میں بوچھاریں کمرے میں گھس آیا کرتی ہیں۔ بستر کو بھی فیضیاب کرتی ہیں۔‘‘
چائے پیتے پیتے مسٹر شرما اچانک کہیں کھوگئے۔ تھوڑی دیر بعد اچھل سے پڑے اور چلاَّئے: ’’یوریکا … یوریکا…! پاگیا ، پاگیا جواب پاگیا۔‘‘
’’کیا پاگئے؟ کیا مل گیا؟ ‘‘ مسز شرما حیران تھیں ’’یہ کیا ہوگیا اچانک آپ کو؟‘‘
’’غبارہ! غبارہ! غبارہ!!‘‘
’’غبارہ ہوگئے؟‘‘ مسز شرما پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ صبح کو چار منزل تک سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچتے پہنچتے مسٹر شرما کے گھٹنوں کی تکلیف بڑھ گئی تھی۔ یہ جوڑا ستر پچہتّر کے لپیٹے میں تھا اور مسٹر شرما کو گٹھیا کا روگ تھا۔ اوپر پہنچنے کے بعد کراہتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ اتنی اونچائی پر چڑھنا اترنا تو میرے لیے ایک مصیبت ہوگی۔ مسز شرما نے اس وقت تو یہ کہہ کر بات ختم کردی تھی کہ آپ کو چڑھنے اترنے کی ضرورت ہی کیا ہے، ملازم تو ہے ہی۔ اب وہ سوچ رہی تھیں کہ آخر یہ غبارہ پانے والی بات کیا ہے، کہیں مسٹر شرما کے دماغ پر بھی اثر تو نہیں پڑگیا۔
مسٹر شرما نے ایک معمولی کلرک کی حیثیت سے عملی زندگی شروع کی تھی۔ معمولی سی آمدنی میں گھر بھی چلایا، دونوں بیٹوں کو تعلیم بھی دلائی اور شوہر بیوی نے اپنی خواہشات کو مار کر، پیسہ پیسہ جوڑ کر، کسی حد تک خود مزدروں کی طرح لگ کر مکان بھی بنالیا۔ کسی سماجی تقریب کے موقع پر عورتیں قیمتی زیوروں اور زرق برق ملبوسات میں اکٹھا ہوتیں تو ان میں مسز شرما ہی ایسی ہوتیں جو عام سے لبا س میں، بغیر کسی زیور کے نظر آتیں۔ مسٹر شرما کچھ دنوں بعد ہیڈ کلرک کے عہدے تک ترقی پاگئے لیکن اس جوڑے کے رہن سہن کے معیار پر کوئی اثر نہ پڑا۔ بیٹوں کی بہتر تعلیم ان کے نزدیک، رہن سہن کا معیار اونچا کرنے سے زیادہ اہم تھی۔
کچھ برس بعد مسٹر شرما کا سیکشن انچارج کے عہدے پر پروموشن ہوگیا۔ تنخواہ بھی بڑھ گئی۔ ضرورت محسوس ہوئی کہ اب سائیکل چھوڑ کر اسکوٹر خرید لینی چاہیے۔ لیکن شوہر بیوی نے اب بھی بچوں کی اعلیٰ تعلیم کو ترجیح دی اور سائیکل ہی استعمال کی جاتی رہی۔ پیسہ جوڑ جوڑ کر مکان کی دوسری منزل بنالی گئی اور اسے کرایہ پر دے کر زائد آمدنی کا راستہ نکال لیا گیا۔ پھر مسٹر شرما کے ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں نے مستقل آمدنی کا ذریعہ بنانے کے لیے تیسری منزل بھی بنالی اور اسے کرایہ پر اٹھا دیا۔ اس دوران بیٹوں کی تعلیم مکمل ہوگئی۔ انھیں اچھی ملازمتیں مل گئیں اور شوہر بیوی نے پی ایف سے بچی ہوئی رقم دونوں کی شادی میں خرچ کردی۔
دونوں بیٹوں نے مل کر چوتھی منزل پر، ایک کمرہ کے سیٹ کی ایک برساتی بنوادی اور اسے کرائے پر نہیں اٹھایا، کمرہ کا استعمال ناقابلِ استعمال اشیاء کے اسٹور اور کباڑ خانہ کی طرح ہونے لگا۔
بڑے بیٹے راجیش کے دو بچے بھی ہوگئے۔ مسٹر اور مسز شرما ان کے ساتھ بڑھاپے کے خشک ایام خوشی مسرت اور جوش خروش سے گزارنے لگے۔ ایک دن راجیش نے مسٹر شرما سے کہا:
’’ڈیڈی، یہاں بہت بھیڑ بھاڑ ہوگئی ہے۔ سوچتا ہوں کہ دوسری منزل کا مکان خالی کرالیا جائے اور آپ اوپر منتقل ہوجائیں۔‘‘ اس طرح مسٹر اور مسزشرما کچھ اونچائی پر پہنچا دیے گئے۔ دھیرے دھیرے مسٹر شرما کو صرف تیسری منزل کے مکان کے کرایہ پر ہی منحصر ہو رہنا پڑا، کیوں کہ بڑی بہو کے مطابق، راجیش کی آمدنی اپنے ہی بیوی بچوں کے لیے ناکافی ہورہی تھی۔ راجیش شرما ایک بینک میں منیجر تھا۔
کچھ برسوں بعد کملیش کی فیملی میں بھی تین بچوں کا اضافہ ہوگیا۔ اور دونوں بیٹوں دونوں بہوؤں کے مشورے سے طے پایا کہ مسٹر اور مسز شرما مزید اونچائی پر پہنچا دیے جائیں۔ لہٰذا تیسری منزل کا مکان خالی کراکے اس جوڑے کو اوپر منتقل کرادیا گیا۔ اس جوڑے نے پی ایف کی رقم میں سے چند ہزار روپئے بینک میں ڈال دیے تھے۔ وہی رقم نکال نکال کر کام چلاتے رہے کیوں کہ کرائے کی آمدنی ختم ہوچکی تھی۔ زندگی کی گاڑی کھسکتی رینگتی آخری منزل کی طرف چلتی رہی۔
دونوں بیٹوں اور دونوں بہوؤں نے تازہ صورتحال پر غور کیا۔ تازہ صورتحال یہ تھی کہ دونوں منزل کے مکان تو مکینوں اور فرنیچر، الماریوں وغیرہ سے ٹھسا ٹھس بھرے ہوئے تھے۔ مہمان آتے اور اگر ان کے ساتھ عورتیں اور بچے بھی ہوتے تو بہت پریشانی ہوتی۔ غور کے بعد مشترکہ اور متفقہ بات یہ طے پائی کہ ڈیڈی اور ممی کو برساتی میں منتقل کردیا جائے۔ انھیں چوتھی منزل پر چڑھا کر تیسری منزل خالی کرالی جائے۔ اس مکان کو ٹھیک ٹھاک کراکے مہمان خانہ بنادیا جائے۔ ’’لیکن ڈیڈی کا خرچہ کیسے چلے گا؟‘‘ کملیش بولا: ’’ڈیڈی ایک دن کہہ رہے تھے کہ بینک کا پیسہ ختم ہونے والا ہے۔ سوچتا ہوں کہ برساتی کرایے پر اٹھا دوں۔ اتناکرایہ تو مل ہی جائے گا کہ ان دونوں کی روزی روٹی چل جائے۔‘‘ کملیش نے ایک انڈسٹری قائم کرلی تھی اور راجیش بھی اچھی آمدنی پیدا کررہا تھا۔
’’ایسا کرتے ہیں…‘‘ بڑی بہو بولی: ’’… ناشتہ اور کھانا ہم لوگ اوپر بھیج دیا کریں گے۔‘‘
’’تجویز تو بہت اچھی ہے۔‘‘ چھوٹی بہو بولی: ’’وہ ہمارے ماتا پتا سمان ہیں۔‘‘
راجیش اور کملیش کی نگاہوں میں، اپنی بیویوں کے تئیں عزت میں بہت اضافہ ہوگیا۔
’’کملیش، دیکھا تم نے؟‘‘ راجیش بولا: ’’اس خود غرضی اور مادّہ پرستی کے زمانے میں بھی، ہماری بیویوں میں انسانی قدروں کی کتنی اہمیت اور بزرگوں کی خدمت کا کیسا جذبہ ہے؟‘‘
’’ہاں بھیا! ہم لوگوں کو اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے کہ ہماری پتنیاں ہمارے بوڑھے والدین کا اتنا خیال رکھتی ہیں۔‘‘ طے پایا کہ راجیش ڈیڈی سے بات کرے گا۔
’’ڈیڈی، آپ لوگ ٹھیک ہیں نہ؟‘‘ تیسری منزل پر چڑھ کر راجیش نے ڈیڈی کو وِش کیا۔
’’ہاں بیٹے۔ بالکل ٹھیک، ایشور کی کر پا سے۔‘‘
’’لیکن ڈیڈی ہم لوگ محسوس کررہے ہیں کہ اس عمر میں آپ لوگوں کو کھلا کھلا مکان چاہیے جس میں سردیوں میں دھوپ اور گرمی کی راتوں میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا ملے۔ لہٰذا آپ کو چوتھی منزل پر برساتی میں منتقل کردیتے ہیں۔ ایک دن میرے گھر سے اور ایک دن کملیش کے گھرسے کھانا آجایا کرے گا۔ آپ لوگوں کو آمدنی کی ضرورت بھی نہ رہے گا اور بڑھاپے میں ممّی کو کھانا بنانے کا کشٹ بھی نہ اٹھانا پڑے گا۔‘ اور اگلے دن مسٹر اور مسز شرما، اور اوپر پہنچ گئے۔ چوتھی منزل کی برساتی میں۔
’’یہ کیسی بات کررہے ہیں آپ۔ مل گیا، مل گیا، جواب پاگیا … غبارہ غبارہ!‘‘ مسز شرما کی فکر مندی بڑھ گئی تھی۔
’’بات یہ ہے بھئی …‘‘ مسٹرشرما بولے ’’کہ بچپن میں غبارہ سے کھیلتے وقت دھاگہ ہاتھ سے چھوٹ جاتا تو میں ڈیڈی سے پوچھتا کہ ڈیڈی، یہ غبارہ اوپر کیوں اٹھتا ہے، اونچائی کی طرف کیوں جاتا ہے۔ ڈیڈی بتاتے کہ بیٹا اس وجہ سے کہ غبارہ ہلکا ہوتا ہے۔ لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہ آتی تھی کہ کوئی چیز ہلکی ہونے پر اوپر کیوں اٹھتی ہے۔ آج اس کمرے میں آکر، میں اپنے بچپن کے سوال کا جواب پاگیا۔