غذا اور غذائیت

پروفیسر متین فاطمہ

ہر جاندار کو زندہ رہنے کے لیے غذا کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ہر وہ چیز جو ایک جاندار کھاتا پیتا ہے، غذا کہلاتی ہے۔ مثلاً ہم ہر روز سبزیاں، پھل، اناج، دودھ اور جو دیگر چیزیں کھاتے پیتے ہیں، سب غذائیں ہی کہلاتی ہیں۔ غذا سے جسم کی پرورش ہوتی ہے۔ اس میں طاقت آتی ہے اور وہ گرم رہتا ہے۔ صحت اور حیات کے لیے غذا نہایت ضروری چیز ہے۔ چنانچہ اگر ایک تندرست و توانا آدمی کو آٹھ دس روز تک غذا نہ ملے تو وہ بھوک سے مرجائے گا۔

جب غذا جسم کی پرورش کرتی اور اسے گرم رکھتی ہے تو یہ بھی ضروری ہے کہ غذا ہمیشہ ایسی کھائی جائے جس میں زیادہ سے زیادہ غذائیت ہو اور وہ آسانی سے جزو بدن بھی بن جائے۔ اس قسم کی غذا سے ہماری مراد مرغن غذا نہیں، بلکہ متوازن غذا ہے۔

متوازن غذا سے مراد وہ غذا ہے جس میں وہ تمام غذائی اجزاء موجود ہوں جن سے جسم کی مناسب نشو ونما ہو، صحت برقرار رہے اور انسان اپنے روز مرہ کے فرائض عمدگی سے انجام دے سکے۔ اگر غذا ان خصوصیات کی حامل نہیں تو اسے ناقص یا غیر متوازن غذا کہا جائے گا۔ اورچونکہ ناقص غذا جسم کی تمام ضروریات کو پورا نہیں کرسکتی، اس لیے انسان کمزور اور لاغر ہوکر مختلف قسم کے امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

ہرغذا، غذائیت کے لحاظ سے دوسری غذا سے مختلف ہوتی ہے۔ غذائیت سے مراد غذا کی وہ خصوصیات ہوتی ہیں جن سے انسان کی نشوو نما اور صحت و تندرستی برقرار رہتی ہے اس لیے متوازن غذا میں تمام غذائی اجزا کا شامل ہونا انتہائی ضروری ہے۔

یوں تو غذائی اجزا بہت سے ہیں مگر مندرجہ ذیل چھ اجزا بے حد ضروری ہیں۔ اگر یہ اجزا کسی غذا میں موجود ہو ںتو اس کے استعمال سے باقی اجزا خود بخود حاصل ہوجاتے ہیں۔

لحمیات (Proteins):

پانی کے بعد جسم میں سب سے زیادہ مقدار پروٹین ہی کی ہے۔ یہ عضلات، بافتوں، خون، دانتوں اور ہڈیوں میں ہوتی ہے۔ اس میں کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن پائے جاتے ہیں۔ کچھ پروٹین میں سلفر، فاسفورس، لوہا، آیوڈین اور کوبالٹ بھی ہوتے ہیں۔

پروٹین سے جسم کی نشو ونما ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ جسم کو طاقت اور حرارت بخشتی ہے۔ چنانچہ روز مرہ استعمال ہونے والی غذا میں پروٹین کی ایک معقول مقدار ہر شخص کے لیے ضروری ہے۔ بچپن میں جبکہ جسم نشوونما پارہا ہوتا ہے، پروٹین کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

پروٹین حیوانی اور نباتاتی غذاؤں یعنی گوشت، انڈا، مچھلی، دودھ، دہی وغیرہ میں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نباتاتی غذائیں مثلاً گیہوں، مٹر، لوبیا، سیم، ماش، مونگ، مسور وغیرہ بھی پروٹین سے بھر پور ہوتی ہیں۔ ایک دن میں ایک آدمی کو تقریباً ۹۰ سے ۱۲۰ گرام پروٹینی غذائیں کھانی چاہئیں۔

نشاستہ دار غذائیں (Carbohydrates)

اس قسم کی غذا کا سب سے بڑا فعل یہ ہوتا ہے کہ یہ جسم میں حرارت پیدا کرتی ہے اور اسے قوت بخشتی ہے۔ ہاضمے کے عمل کے دوران نشاستہ شکر میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ شکر بعد میں گلائی کوجن (Glycogen) یا حیوانی شکر میںبدل جاتی ہے اور جسم میں حرارت اور طاقت پیدا کرنے کے لیے صرف ہوتی ہے۔ اس قسم کی غذا ضرورت سے زیادہ کھائی جائے تو جسم کا وزن بڑھنے لگتا ہے۔ایک جوان آدمی کو چوبیس گھنٹوں میں ۷۲۰ سے ۷۸۰ گرام نشاستہ دار غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ شکر، چاول، گندم، اراروٹ اور آلو وغیرہ میں کثیر مقدار میں نشاستہ پایا جاتا ہے۔

چکنائی

چربی، گھی اور تیل جیسی غذائیں چکنائی میں شمار ہوتی ہیں۔ چکنائی والی غذا جسم میں گرمی اور قوت پیدا کرتی ہے۔ ایک جوان آدمی کو دن رات میں کم از کم ۴۵ گرام اور زیادہ جسمانی محنت کرنے والے کو ۹۰ گرام چکنائی کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیکن اگر ضرورت سے زیادہ چکنائی کھائی جائے تو اس سے یا تو ہاضمہ خراب ہوجاتا ہے یا وہ جسم میں جمع ہوکر ضرورت سے زیادہ موٹا کردیتی ہے۔ موٹاپا بذات خود ایک پریشان کن مرض ہے۔ چکنائی والی غذا شکر اور نشاستہ دار غذا کے مقابلے میں جسم میں دوگنی سے کچھ زیادہ گرمی پیدا کرتی ہے۔

نمکیات

معدنی اور دوسرے نمکیات کے بغیر بھی انسان تندرست نہیں رہ سکتا۔ یہ خون، ہڈیوں اور گوشت کی ساخت میں کام آتے ہیں۔ جسم کے ان تمام کیمیاوی اعمال میں، جن پر کہ زندگی کا انحصار ہے، ان نمکیات کا ہونا لازمی ہے۔

جب جسم میں نمکیات کی مقدار کم ہوجاتی ہے تو دورانِ خون سست ہوجاتا ہے۔ عام کھانے کا نمک تو غذا کے ساتھ کھایا ہی جاتا ہے لیکن دوسرے نمکیات کا بھی جو سبزیوں اور دیگر غذاؤں میں پائے جاتے ہیں، جسم میں پہنچنا نہایت ضروری ہے۔ یہی سبب ہے کہ جب غذا میں دیر تک سبزی، ترکاری یا پھل نہیں کھائے جاتے تو مذکورہ نمکیات کی کمی سے کئی امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ ایک جوان آدمی کو دن رات میں ۱۵ سے ۳۰ گرام تک مختلف قسم کے نمکیات کی ضرورت ہوتی ہے۔

حیاتین (Vitamins)

حیاتین ایسے اجزا کا مرکب ہیں جوکئی قسم کی خوراک میں تھوڑی بہت مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ انسانی صحت کی بقا کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ غذا میں ان کی عدم موجودگی سے مختلف قسم کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔

پانی

بقائے حیات کے لیے ہوا کے بعد پانی ہی کا درجہ آتا ہے۔ ہمارے جسم کی بناوٹ میں دوتہائی سے زیادہ پانی ہوتا ہے۔ پانی غذا میں بدرقہ کا کام دیتا ہے، یعنی یہ غذا کے اجزاء کو جسم کے تمام حصوں میں لے جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غذا کے اجزاء اس میں آسانی کے ساتھ حل ہوجاتے ہیں اور ان کا سارے جسم میں منتقل ہونا سہل ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی جسم کو فضلات سے پاک بھی کرتا ہے۔ باقی غذا کے ہضم میں بھی مدد دیتا ہے۔ دورانِ خون کو قائم رکھنے میں بھی پانی بڑا اہم رول ادا کرتا ہے۔

جن لوگوں کو روزانہ غذا میں اوپر لکھے گئے تمام اجزاء جسم کی ضرورت کے مطابق ملتے رہتے ہیں، وہ تندرست و توانا رہتے ہیں۔ ان پر امراض جلد حملہ آور نہیں ہوپاتے۔ اگر کبھی اس قسم کی متوازن غذا استعمال کرنے والے لوگ بیمار ہو بھی جائیں تو بہت جلد شفایاب ہوجاتے ہیں۔

صحت مند آدمی کی پہچان

صحت مند آدمی کی شناخت یہ ہے کہ وہ چہرے سے خوش باش نظر آئے گا۔ اس کی آنکھوں میں چمک ہوگی۔ اس کے بال ملائم اور ایک خاص قسم کی چمک رکھتے ہوں گے۔ دانت یکساں اور چمکدار، جلد ملائم اور سرخی مائل ہوگی۔ اس کا قد و قامت اور وزن جسم کی بناوٹ اور عمر کے مطابق ہوگا۔ اس قسم کے صحت مند آدمی میں کام کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ وہ جلدی تھکتا نہیں۔ اس میں قوت برداشت ہوتی ہے اس لیے وہ بیماریوں میں بھی آسانی سے مبتلا نہیں ہوتا۔

اس کے مقابلے میں جو لوگ تندرست و توانا نہیں ہوتے، ان کے چہروں پر بے رونقی، رنگ زردی مائل اور آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ تنک مزاج، زود رنج اور چڑچڑے ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوںکا فوراً برا مان جاتے ہیں۔ دبلے اور کمزور نظر آتے ہیں۔ ان میں قوت برداشت کی کمی ہوتی ہے۔ یہ امراض میں جلد گرفتار ہوجاتے ہیں۔ معمولی کام کرنے سے بھی جلد تھک جاتے ہیں۔ ان کی جلد خشک اور کھردری ہوتی ہے۔ بعض کی جلد پر جھریاں پڑی ہوتی ہیں۔ بال خشک اور بے رونق، دانت گندے اور غیر صحت مند، بعض اوقات دانت عمر سے پہلے ہی گرنے لگتے ہیں۔ بال بھی بھربھرے ہوکر جھڑنے لگتے ہیں۔

کمزور اور غیر صحت مند آدمی کو بھوک کم لگتی ہے۔ غذا ٹھیک طرح سے ہضم نہیں ہوتی۔ رات کو گہری نیند نہیں آتی۔ دیکھا گیا ہے کہ جن لوگوں کو غذا اور غذائیت سے متعلق مکمل معلومات حاصل ہوتی ہیں اور جو متوازن غذا استعمال کرتے ہیں۔ ان کی عمریں لمبی ہوتی ہیں، بڑھاپا دیر میں آتا ہے اور وہ عام طور پر زندگی کے آخری لمحے تک تندرست و توانا رہتے ہیں اور یہ تو ایک حقیقت ہے کہ صحت مند والدین کے بچے بھی صحت مند ہوا کرتے ہیں۔ چنانچہ ایسے افراد میں بچوں کی شرح اموات بہت کم ہوتی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146