گزشتہ صدی تک دنیا بھر کے افراد کی خوراک سبزیوں، دالوں، خشک اور تازہ پھلوں اور دانہ دار اشیا مثلاً گیہوں، جوار، باجرے یا چاول پر مشتمل ہوتی تھی، لیکن موجودہ صدی کے دوران میں مغربی ممالک اور تیسری دنیا کی شہری آبادی کی خوراک تبدیل ہوگئی ہے اور یہ طبقہ جانوروں کا گوشت، مچھلی، انڈے اور دودھ سے بنی ہوئی اشیابکثرت کھانے لگا ہے۔ اس طرح لوگ چربی، شکر اور پروٹین زیادہ مقدار میں استعمال کرنے لگے ہیں اوربغیر چھنا آٹا وغیرہ کم استعمال کرتے ہیں۔ اس وجہ سے دل کی بیماریاں، کینسر، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس اور موٹاپے جیسے امراض میں اضافہ ہوگیا ہے۔ موٹاپے اور دیگر بیماریوں سے بچنے کے لیے جو لوگ اپنی خوراک میں وقتی طور پر کمی کرتے ہیں، وہ کچھ عرصہ تو نسبتاً تندرست رہتے ہیں لیکن جلد ہی خوراک کی مقدار پھر بڑھا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں وہی عارضے انھیں دوبارہ گھیر لیتے ہیں۔
وزن کم کرنے اور بیماریوں سے بچنے کا حل یہ نہیں کہ ہم ڈائٹنگ یعنی اپنی خوراک میں کمی کریں بلکہ تندرستی کا راز یہ ہے کہ اپنی خوراک میں تبدیلی لائیں اور ایسی اشیا کھائیں جو قدرتی طور پر انسانی جسم کے لیے غیر نقصان دہ ہیں اور یہ اشیا نباتاتی مادوں پر مشتمل ہوسکتی ہیں جو مزے دار بھی ہوں اور قوت بخش بھی۔ حیوانی خوراک کے بجائے انسان مزیدار نباتاتی اشیاء کھائے تو خوب کھا پی کر بھی اپنا وزن گھٹا سکتا ہے۔ اگر درجِ ذیل ہدایات پر عمل کیا جائے تو موٹاپے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دیگر بیماریوں سے نجات پائی جاسکتی ہے۔
ملے جلے نشاستوں والی اشیائے خوردنی استعمال کیجیے۔ عموماً جب کسی کو موٹاپے کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے زائد وزن سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے تو خود بخود روٹی، آلو، چاول اور سوئیاں وغیرہ کھانا چھوڑ دیتا ہے اور ان کے بجائے گوشت، سلاد، گھی، مکھن اور فروٹ جیسی اشیا کھانے لگتا ہے جن میں پروٹین زیادہ ہوتی ہے اور نشاستہ کم؛ حالانکہ حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ پروٹین انسان کو زیادہ موٹا کرتی ہے۔ نشاستے دار اشیاء میں چربی نہیں ہوتی اور نشاستے دار اشیا کی ایک تہائی مقدار جزوِ بدن بنے بغیر جسم سے خارج ہوجاتی ہے۔ اس طرح جو خوراک ہم کھاتے ہیں اس سے بھوک تو مٹ جاتی ہے لیکن ایک تہائی حرارے جسم میں اسٹور ہونے کے بجائے خارج ہوجاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک تہائی وزن کم ہوجاتا ہے۔ اناج مثلاً: گندم، جو اور چاول سے بھوک تو ختم ہوجاتی ہے لیکن ان میں زیادہ حرارے نہیں ہوتے۔ مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنس اور انسانی خوراک کے ماہر پروفیسر اولف میکلسن کا کہنا ہے کہ روٹی حقیقتاً وزن کم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ایسے انسان جو بہت موٹے ہیں، روٹی خوب کھائیں تاکہ ان کا پیٹ بھر جائے اور پھر انڈا، گوشت، مکھن وغیرہ کھانے کی گنجائش نہ رہے جن میں زیادہ حرارے ہوتے ہیں۔ ایسا کرکے آپ ۱۲ سے ۱۹ پونڈ وزن ۲ ماہ کے اندر اندر کم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
۲- پروٹین کا استعمال گھٹائیے۔ ایک بالغ مرد اگر ایک چھٹانک گوشت کھالے تو دن بھر کے لیے درکار حراروں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے، لیکن شوقین طبع لوگ کھانے کے ہمراہ پاؤ بھر گوشت، مرغا، یا بھنی ہوئی مچھلی کھا جاتے ہیں۔ گوشت میں اصل مصیبت وہ چربی ہے جو حیوانی پروٹین کے ہمراہ انسانی جسم میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس کے برعکس پودوں سے حاصل ہونے والی پروٹین صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتی۔ اگرچہ بیجوں اور خشک میووں میں پروٹین کی خاصی مقدار پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ حیوانی پروٹین کے مانند رگوں میں خون کے لوتھڑے بناکر دل کے دوروں کا سبب نہیں بنتی۔ پھر نباتاتی پروٹین میں کئی ضروری ایمائنو ایسڈز بھی ہوتے ہیں۔ ایسی پروٹین جو جسم کی بافتیں (ٹشوز) اور ایمائنوایسڈز بنانے کے لیے ضروری ہیں، اس کے حصول کے دو طریقے ہیں:
(۱)کسی سبزی مثلاً لوبیا، مٹر، سویابین کو گندم یا چاول کے ساتھ ملاکر کھایا جائے۔
(۲) گندم، چاول یا بیج دار اشیا تھوڑے سے گوشت، مچھلی، انڈے یا ڈیری کی اشیاء سے ملاکر کھائی جائیں۔
ہم اپنے گھروں میں گوشت کو جوں کا توں بہت کم استعمال کرتے ہیں، بلکہ اسے سبزیوں وغیرہ یا سلائس کے ساتھ ملاکر کھاتے ہیں۔ پھر ساتھ ہی نشاستہ دار حیوانی پروٹین جسم میں داخل کرتے رہتے ہیں اور جب ہمارے کھانے میں گوشت موجود نہیں ہوتا تو ہم دودھ، گھی، پنیر، مکھن یا انڈوں سے پروٹین جسم میں دھکیلتے رہتے ہیں۔ ماہرینِ غذائیات یہ نہیں کہتے کہ آپ کبھی چوزے کا بھنا گوشت استعمال نہ کریں یا آپ راتوں رات اپنی خوراک میں تبدیلی پیدا کرلیں بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ پہلے پہل ہفتے میں ایک یا دو بار صرف نشاستہ دار کھانا کھائیے اور پھر ایسے کھانوں کی تعداد بڑھاتے جائیے۔
۳- ایک بڑا چمچہ بھر سبزیوں کا تیل میسر آجائے تو یہ دن بھر کے لیے ضروری چکنائی کے حامل ایمائنو ایسڈز بنانے کے لیے کافی ہوتا ہے لیکن اکثر لوگ اس سے کئی گنا زیادہ مقدار میں چربی والی اشیا روزانہ استعمال کرجاتے ہیں۔ چربی کے ایک گرام میں ۹کیلوریز یا حرارے جبکہ نشاستے کے ایک گرام میںصرف چار حرارے ہوتے ہیں۔ فرق صاف ظاہر ہے۔ نشاستہ دار اشیاء کے ساتھ جب آپ نباتاتی ذرائع سے حاصل ہونے والے روغنیات استعمال کریں گے تو یہ چیز آپ کا موٹاپا کم کرنے اور آپ کی صحت بہتر بنانے میں زیادہ معاون ثابت ہوگی۔ زیتون کا تیل، مونگ پھلی کا تیل، مکئی کا تیل اور سویا بین کا تیل صحت کے لیے اس لحاظ سے بھی مفید ہیں کہ ان میں رگوں کے اندر خون کو گاڑھا کرنے والا مادہ کولیسٹرول بہت کم ہوتا ہے جو دل کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ بغیر بالائی کے دودھ کی ایک پیالی میں عام دودھ کی ایک پیالی کی نسبت چربی والے مادے بنانے والے حرارے ستر عدد کم ہوتے ہیں اور بغیر بالائی کے دودھ سے بنی دہی میں وہ تین سو مزید کم ہوجاتے ہیں۔ وزن گھٹانے کے لیے خصوصی طور پر بنایا گیا مصنوعی مکھن اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اصل مکھن کے مقابلے میں اس میں نصف کیلوریز کم ہوتی ہیں۔
۴- چینی اور نمک سے بچیے۔ چینی، مٹھائیوں، گلوکوز اور شربت وغیرہ میں بھی بہت زیادہ حرارے ہوتے ہیں۔ بچے میٹھی ٹافیاں اور گولیاں بہت شوق سے اور بہت زیادہ مقدار میں کھا جاتے ہیں۔ بعض بڑے بھی یہ شغل فرماتے ہیں۔ ایسا کرنے سے بھوک تو نہیں مٹتی؛ البتہ جسم میں بے تحاشا کیلوریز پہنچ جاتی ہیں اور نتیجتاً موٹاپے کا سبب بنتی ہیں جو لوگ میٹھی چیزوں کے شوقین ہیں انہیں چاہیے کہ تازہ میٹھے پھل کھائیں۔
زیادہ نمک بھی بیماریوں کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس کا زیادہ استعمال ہائی بلڈ پریشر کا سبب بنتا ہے۔ بلڈ پریشر اور موٹاپے کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لیے اگر کوئی شخص موٹاپے اور ہائی بلڈ پریشر سے بچنا چاہتا ہے تو وہ نمک کا استعمال کم کردے۔نمک کے بجائے ہم اپنے کھانوں کو لیموں، سرکے اور پیاز وغیرہ سے بھی مزے دار اور خوشبودار بناسکتے ہیں۔ مارکیٹ میں کم نمک ملی اشیائے خوردونوش بھی میسر ہیں۔ ان کے استعمال سے بھی ہم غذا میں نمک کی مقدار کم رکھ سکتے ہیں۔
آخری بات یہ ہے کہ ملی جلی نشاستہ دار اشیا کا زیادہ استعمال موٹاپے کو روکتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آدمی گوشت، گھی، مکھن اور میٹھی چیزوں کے بجائے نشاستہ دار چیزوں کا استعمال اوائل عمر ہی سے شروع کردے؛ تاہم اگر عمر کے کسی مرحلے میںبھی یہ فارمولا ہاتھ لگ جائے تو فائدے سے خالی نہیں۔