غربت، ادب اور ادیب

ثروت نذیر

تینوں کافی ہاؤس کی میز کے گرد بیٹھے سگریٹ پھونک رہے تھے۔ بارش رکی ہوئی تھی اور اب ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔بیرے نے آکر سامنے والے دروازے کے پردے ہٹادیے۔
’’ویٹر۔‘‘ ان میں سے کسی نے آواز دی۔
’’یس سر۔‘‘ وہ قریب آکر بولا۔
’’دیکھو بھئی تین کپ کافی لے کر آؤ، بغیر دودھ کے۔‘‘
’’یس سر۔‘‘ وہ آرڈر لے کر چلا گیا۔
’’دیکھ رہے ہیں مرزا صاحب آپ! میاں کاظم نے پھر کافی منگوالی۔ آخر کافی پینے سے مسئلے تو حل نہیں ہوجاتے۔‘‘ ذاکٹر صاحب عینک صاف کرتے ہوئے بولے۔
’’ذاکر صاحب! میں مسئلے کے حل کے لیے نہیں سردی کے حل کے لیے کافی پی رہا ہوں اور ویسے بھی کوئی مسئلہ اب ایسا نہیں کہ اس کے لیے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد تین روپے خرچ کردیے جائیں۔‘‘
’’آپ کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے سلسلے میں میں ہوٹل کے ہال کی بکنگ کے لیے کوشش کروں گا پھر مسئلہ کیا رہ جاتا ہے؟‘‘
’’مسئلہ صرف میرا نہیں ہے ہمارے پورے ملک کے عوام کا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ جو کام بھی کریں اس میں عوام الناس کا بھلا ہو۔ میرا مطلب غریب عوام سے ہے۔‘‘
’’ایک تو آپ ہر مسئلے میں غریب عوام کو گھسیٹ لاتے ہیں۔ جہاں تک ہم ادیبوں سے ہوتا ہے ان کے بھلے کے لیے ہم کام کرتے ہی ہیں، اب اور کیا ہوسکتا ہے۔‘‘ مرزا صاحب بولے۔
’’اچھا چھوڑیں ان باتوں کو، کاظم صاحب، آپ یہ بتائیں کہ آپ کی کتاب کی رونمائی کے سلسلے میں مہمانِ خصوصی کون ہوں گے؟‘‘ ذاکر صاحب کافی کی چسکی لے کر بولے۔
’’میرے خیال میں کسی وزیر سے رابطہ کرلیں۔‘‘ مرزا صاحب بولے۔
’’میرے خیال میں تو کسی بڑے ادیب سے رابطہ قائم کرنا چاہیے۔ کیا خیال ہے آپ کا کاظم صاحب۔‘‘ ذاکر صاحب نے پوچھا۔
’’جی کیا فرمایا آپ نے؟‘‘ کاظم صاحب چونک کر بولے۔
’’لیجیے، ہم آپ کے غم میں دبلے ہورہے ہیں اور آپ ہیں کہ ’’فرمائیں گے کیا؟‘‘
’’بھئی وہ معاف فرمائیے گا میں ذرا باہر دیکھ رہا تھا۔‘‘
’’باہر ایسی کیا خاص بات ہے؟‘‘ ذاکر صاحب باہر دیکھتے ہوئے بولے۔
ہوٹل کے باہر سڑک کے دوسرے کنارے پر بلڈنگ بن رہی تھی۔ اسی بلڈنگ کے کنارے پر لوگوں نے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر بھی بلند کرنا شروع کردیے تھے۔ اسی کوڑے کے ڈھیر پر ایک عورت کاغذ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے کمر پر لٹکے ہوئے تھیلے میں ڈال رہی تھی۔ اسی کوڑے کے ڈھیر پر جہاں لوگ ناک پر رومال رکھ کر دو گز کے فاصلے سے میونسپل کارپوریشن والوں کو صلواتیں سناتے گزرتے تھے، اسی ڈھیر پر وہ بڑی بے تکلفی کے ساتھ اپنے ہاتھوں کاغذوں میں اپنا رزق تلاش کررہی تھی۔
’’اس عورت کو دیکھ رہے ہیں آپ؟‘‘ میاں صاحب بولے۔
’’جی ہاں! ایسے لوگ تو آپ کو اکثر ہی کوڑے کے ڈھیروں پر مل جائیں گے اس میں کیا نظر آگیا ہے آپ کو؟‘‘
’’جی نہیں، نظر تو کچھ نہیں آیا، میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ رزق کمانے کا یہ ذریعہ ان کے لیے کیا کچھ معنی رکھتا ہے، کیا کبھی ان لوگوں کا دل نہیں چاہتا کہ وہ بھی ناک پر رومال رکھ کرہماری طرح اس جگہ سے گزر جائیں؟‘‘
’’میرے خیال میں نہیں۔ ان کے لیے یہ جگہ وہی معنی رکھتی ہے جو ہمارے لیے ہمارے دفتر وغیرہ کو حاصل ہے۔ جس طرح ہم نوکریاں تلاش کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ صرف کوڑے کے ڈھیروں کی تلاش میں رہتے ہوں۔‘‘
’’نہیں ذاکر صاحب میں آپ کی بات سے اتفاق نہیں کرتا۔ اچھی اور بری چیزوں میں تمیز ہر آدمی کرسکتا ہے۔ یہ عورت بھی؟‘‘
’’بھئی آپ لوگ یہ کیا مسئلہ لے کر بیٹھ گئے ہیں؟‘‘ مرزا صاحب بیزار ہوکر بولے۔
’’مسئلہ چھوٹا نہیں ہے۔ مگر اس کا ہم لوگوں کو اس لیے احساس نہیں ہے کہ یہ مسئلہ ہمارے ساتھ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ اس طبقے کے ساتھ ہے جس کی آواز سنی نہیں جاتی اور وہ ہماری طرح احتجاج کرنا نہیں جانتا۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ان کو احساس دلائیں کہ وہ اپنے حقوق کے لیے کوشش کریں۔ ہمیں ان کے لیے با عزت رزق کی فراہمی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔‘‘ میاں کاظم نے تقریر کرڈالی۔
’’میرے خیال میں ان لوگوں کے لیے فلاحی ادارے بنانے چاہئیں، جہاں یہ کوئی ہنر سیکھیں اور باعزت طریقے سے رزق کمائیں۔‘‘ ذاکر صاحب بولے۔
’’جی ہاں بالکل، اور مخیر حضرات کو چاہیے کہ معاشرے سے اس غربت کو دور کرنے کے لیے فنڈز اکٹھے کریں اور ان لوگوں کو رقم دیں تاکہ یہ لوگ اپنے رزق کو باعزت بنائیں۔‘‘
’’حضرات! آپ ساری ذمہ داری دوسروں کے کندھوں پر ڈال رہے ہیں۔ آپ لوگ یہ سوچیں کہ اس مسئلہ میں ہم ادیبوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں۔‘‘ میاں کاظم بولے۔
’’جی ہاں، بالکل میں آپ کے نکتے سے اتفاق کرتا ہوں۔‘‘ ذاکر صاحب سگریٹ کا کش لیتے ہوئے بولے۔
’’میرے خیال میں میاں کاظم صاحب! آپ اپنی نئی کتاب کو انہی کے نام منسوب کردیں۔‘‘ مرزا صاحب سوچتے ہوئے بولے۔
’’واہ! وا! کیا اچھوتا خیال ہے، ایک نیا پن ملے گا ادب کو! کیوں کاظم صاحب؟‘‘
’’جی ہاں آئیڈیا تو منفرد ہے۔‘‘
’’اجی یہی تو انفرادیت پسندی ہے جس کے لوگ طالب ہیں۔ کاظم صاحب آپ کی کتاب عوامی حلقوں میں یوں مقبول ہوگی کہ آپ خود حیران رہ جائیں گے۔ ان کو یہ احساس ہوگا کہ ہمارا ادب اب صرف منفرد خیالات کو جگہ دیتا ہے۔‘‘
’’اور ہاں میاں صاحب! وہ جو بات تھی نا، مہمانِ خصوصی والی تو وہ بھی اگر اس طبقے سے تعلق رکھتا ہو تو کیا خیال ہے؟‘‘ مرزا صاحب بولے۔
’’اچھا خیال ہے۔ کیوں کہ آپ کی کتاب کے بیشتر افسانے تقریباً ایسے ہی لوگوں کے گرد گھومتے ہیں۔‘‘ ذاکر صاحب نے کہا۔
’’ادبی حلقوں میں بھی تو ہاتھوں ہاتھ بکے گی یہ کتاب۔‘‘ مرزا صاحب بولے۔
’’اور پھر ایک آدھا ٹیلی ویژن پر تبصرہ بھی نشر ہوجائے گا اور شہرت کو چار چاند لگ جائیں گے۔ کیوں کاظم صاحب کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘
’’آپ اہلِ علم لوگوں کے خیالات سے انکار کیسے ممکن ہے۔‘‘ کاظم صاحب بولے۔
’’ہال کی بکنگ تو میری طرف سے ہوئی سمجھیں۔‘‘ مرزا صاحب بولے۔
’’ٹیلی ویژن پر میں کوشش کروں گا۔‘‘ ذاکر صاحب نے کہا۔
’’اچھا تو صاحبان مسئلہ تو تقریباً حل ہوگیا اب میرا خیال ہے ہوٹل کی خلاصی کرنی چاہیے۔‘‘ میاں کاظم اٹھتے ہوئے بولے۔
’’جی ہاں بالکل چلیں۔ ویٹر! ’’یس سر‘‘ ویٹر بھاگتا ہوا آیا’’بل لے آؤ۔‘‘
کاظم صاحب نے ۸۵ روپئے کا بل ادا کیا اور تینوں ہوٹل سے باہر نکل آئے۔
ذاکر صاحب اپنی موٹر سائیکل کا لاک کھول رہے تھے، کاظم صاحب اور مرزا صاحب گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔
’’کیوں ذاکر صاحب کیا ہوا؟‘‘ میاں کاظم نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں بھئی وہ دفتر کے لیے اسٹیشنری خریدی تھی، بارش میں اس کا ستیاناس ہوگیا۔‘‘
’’تو پھینکو بھئی تم نے کونسی جیب سے خریدی تھی؟‘‘
ذاکر صاحب نے کاغذاٹھا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیے اور سگریٹ کی خالی ڈبیہ بھی! اور تینوں وہاں سے روانہ ہوگئے۔
کاغذ اٹھانے والی عورت مایوس ہوکر جانے ہی والی تھی کہ اس نے ذاکر صاحب کو کاغذ پھینکتے ہوئے دیکھا۔ وہ دوڑتی ہوئی واپس آئی اور اس نے کاغذ اور خالی ڈبیہ اٹھا کر تھیلے میں ڈال لی۔
اس کا مسئلہ تقریباً حل ہوگیا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146