غروروتکبر سے پرہیز کیجیے

محسنہ انیس، رودرپور

انسان جب اپنی تخلیق کو بھول جاتا ہے اور اپنی حیثیت اور وسائل کو اپنی کارکردگی اور محنت کا پھل قرار دیتا ہے تو اس میں غرور سر اٹھانے لگتا ہے۔ آگے چل کر وہ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ مقام اس کا حق ہے کیونکہ یہ اسے اس کی خوبیوں اور صلاحیتوں کی وجہ سے ملا ہے۔ ایسا شخص اپنے آپ کو دوسروں کے مقابلے میں بڑاسمجھتا ہے اور دوسروں کو اپنے سے کم تر اور حقیر جانتا ہے۔ یہی تکبر ہے۔ تکبر ایسی اخلاقی برائی ہے جس سے بہت کم لوگ بری ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ علماء اور عابد و زاہد بھی اس سے محفوظ نہیں ہوتے۔ تکبر کا ایک مظہر یہ ہوتا ہے کہ لوگ دوسروں کی بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ اس کی بہت سی جہتیں اور نشانیاں ہیں، جن کا ذکر قرآن مجید اور احادیث میں ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ القصص میں فرمایا ہے: ’’وہ جو آخرت کا گھر ہے ہم نے اسے ان لوگوںکے لیے تیار کررکھا ہے جو دنیا میں نہ تو اپنی برتری چاہتے ہیں اور نہ ہی فساد، انجام تو پرہیزگاروں کے لیے ہے۔‘‘

دنیا میں جن لوگوںنے متکبرانہ رویہ اختیار کیا ان کی مثالیں اس لیے بیان کی گئی ہیں تاکہ انسان اس غلط رویے سے بچ سکے۔ مثلاً فرعون کا ذکر ہے کہ ’’بے شک زمین پر بڑابن بیٹھا اور زمین پر رہنے والوں کو گروہوں میں بانٹ دیا، ایک گروہ کو دبادیتا اور ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا تھا اور عورتوں کو زندہ رکھتا تھا۔ بے شک وہ فساد برپا کرنے والوں میں سے تھا۔‘‘ (قصص:۴)

اسی سورت میں بیان ہے قارون کے بارے میں جو اپنی دولت کی بنیاد پر تکبر میں مبتلا تھا فرمایا: ’’بیشک قارون، موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا اور ہم نے اسے اتنے خزانے دے رکھے تھے کہ ان کی چابیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانا مشکل ہوتیں۔ اور اس وقت کو یاد کرو جب اس کی قوم نے اس سے کہا کہ اپنے مال پر اتراؤ نہیں، اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (آیت:۷۶)

اس سلسلے میں قرآن مجید نے جو عمومی ہدایات دی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان اپنی ہر حالت کو آزمائش سمجھے، خواہ وہ مال دار ہوجائے یا تنگ دست۔ قرآن کہتا ہے: ’’انسان کا معاملہ عجیب ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اس کی آزمائش کے لیے کوئی رتبہ دیتا ہے یا دنیا کی نعمتیں تو کہہ اٹھتا ہے کہ اللہ نے مجھے بڑی عزت دی اور جب اللہ تعالیٰ کسی آزمائش کے لیے اس پر رزق تنگ کردیتا ہے تو وہ پکار اٹھتا ہے کہ ہائے اللہ نے مجھے ذلیل کردیا ہے۔‘‘ (الفجر: ۱۵-۱۶)

جب انسان کی ہر حالت آزمائش کا ذریعہ ہے اور وہ اللہ ہی کے اذن سے آتی ہے تو پھر انسان کو ہرگز زیبا نہیں کہ تکبر کرے۔ چنانچہ سورۃ لقمان میں فرمایا: ’’اور ازراہِ غرور لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین پر اکٹر کر نہ چلنا کہ اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (آیت:۱۸)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کبریائی میری چادر ہے اور عظمت میرا راز ہے،جو ان میں سے کچھ بھی چھیننا چاہتا ہے تو میں اسے آگ میں ڈال دو ںگا۔‘‘ (مسلم و ابوداؤد)

گویا تکبر عزت کے منصب سے گرادینے والی خصلت ہے اور پھر انسان کو تکبر کا کیا حق ہے، جو اپنے وجود پر بھی مختار نہیں ہے اور اس کے پاس جو اسباب ہیں، وہ تو سارے اللہ کی کے مہیا کیے ہوئے ہیں۔ ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’کیا میں تم کو آگاہ نہ کروں کہ دوزخ والے کون ہیں؟ ہر سرکش، بدخلق اور تکبر کرنے والا۔‘‘ (متفق علیہ)

ایک موقع پر فرمایا: ’’جنت دوزخ میں مکالمہ ہوگیا تو دوزخ نے کہا میرے اندر تو جبا راور متکبر ہیں اور جنت نے کہا کہ میرے اندر تو مساکین اور غریب لوگ ہیں۔‘‘ (رواہ مسلم)

ایک اور حدیث ہے: ’’تین قسم کے لوگ وہ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ( قیامت کے دن) نہ کلام فرمائیں گے اور نہ ان پر نظر رحمت کریں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا۔ یہ تین لوگ ہیں، بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور فقیر متکبر۔‘‘

تکبر کی حقیقت کیا ہے اور اس کا اظہار کس صورت میں ہوتا ہے۔ اسے بھی آپؐ نے اپنے فرمودات میں واضح فرمادیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں نہیں جاسکے گا جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا۔ ایک صحابیؓ نے پوچھا: ایک شخص چاہتا ہے اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کا جوتا خوبصورت ہو توکیا یہ بھی تکبر ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ’’بیشک اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور وہ خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ یعنی یہ تکبر نہیںہے بلکہ تکبر یہ ہے کہ آدمی حق کو جھٹلادے اور انسانوں کو حقیر سمجھے۔‘‘ (مسلم و ابوداؤد)

قبول حق میں اصل رکاوٹ انسان کی ’انا‘ ہوتی ہے۔ اس کا نفس ایمان کی پابندیاں اختیار کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا اور اکـڑ چھوڑ کر انکساری قبول نہیںکرتا اور اپنے خاندان اور حیثیت کی بنیاد پر دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔

انسان کے لبا س میں تکبر کا جو اظہار ہوسکتا ہے، اس کا ذکر بھی رسول اللہ ﷺ نے فرمادیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف توجہ نہیں فرمائے گا، جس کا تہبند اترانے کی غرض سے لٹکا ہوا ہوگا اور دوسری روایت میں ہے جس نے اپنے کپڑے کو نماز میں لٹکایا تو وہ اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام میں سے کسی چیز پر نہیں ہے۔ اچھی پوشاک پہننا اور بالوں کو کنگھی کرنا درست ہے بلکہ سنت بھی ہے لیکن اگر اپنی پوشاک پر غرور پیدا ہو تو یہ اسی لیے اس کے لیے تباہی کا ذریعہ بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں نماز، روز ، زکوٰۃ اور حج کی عبادت کو لازم کردیا، تاکہ انسان اپنی حیثیت کو بھولنے نہ پائیں۔ انہیں یاد رہے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں۔

چنانچہ بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا، ترجمہ: ’’اور نمازپڑھا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ کے آگے جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔ یہ کیا عقل کی بات ہے کہ تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے تئیں فراموش کیے دیتے ہو، حالانکہ تم کتاب اللہ بھی پڑھتے ہو۔ کیا تم سمجھتے نہیں اور رنج و تکلیف میں صبر اور نماز سے مدد لیا کرو اور بیشک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر نہیں جو عجز کرنے والے ہیں۔‘‘ (البقرۃ:۴۳ تا ۴۵)

اہلِ ایمان سے فرمایا گیا: ’’اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدے کرو اور اپنے پروردگار کی عبادت کرو اور نیک کام کرو تاکہ فلاح پاؤ۔‘‘ (الحج: ۷۷)

جہنمیوں سے بھی جب پوچھا جائے گا کہ کون سی چیز تمہیں یہا ںلائی تو وہ یہی کہیں گے ’’ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور فقیروں کو کھانانہیں کھلاتے تھے اور اہل باطل کے ساتھ مل کر حق سے انکار کرتے تھے اور روزِ جزا کو جھٹلاتے تھے۔‘‘ (المدثر: ۴۳ تا ۴۶)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں