غریب کی موت

تحسین عباس راحلؔ سنکھنوی

صبح کے دس بجے تھے لوگ اپنے اپنے کام پر جارہے تھے۔ کالونی نہایت غریب لوگوں کی تھی۔ اس کے پیچھے فلیٹ بنے تھے اور دوسری جانب ایک دوسرے سے فاصلے پر جھونپڑیاں بنی ہوئی تھیں جس کا دوسرے لوگوں سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ ان جھونپڑوں کے درمیان سے ہی ایک راستہ جاتاتھا جو کہ آگے جاکر فیکٹری ایریے سے ملتاتھا جن لوگوں کو جلدی ہوتی تھی وہ اسی شارٹ کٹ راستے سے گزرتے تھے۔ آج صبح گھر سے نکلنے میں دیرہوگئی اسی وجہ سے اس نے یہی شارٹ کٹ اختیارکیاتھا۔ راستے سے گزرتے ہوئے اس نے دیکھاکہ چندکتّے کوئی چیز گھسیٹ رہے تھے اور فضا میں کچھ چیلیں بھی منڈلارہی تھیں۔اُسے سمجھنے میںدیر نہ لگی کہ ضرور یہاں پر کوئی مردہ جانور پڑا ہے۔ وہ یہ سوچ کر اس طرف بڑھاکہ اسے ریت سے ڈھک دیاجائے کہ وہ لوگوں کے لئے بدبو اور بیماریوں کاسبب نہ بنے۔ مگر قریب جاکر دیکھاتواس کے ہوش اڑگئے۔ کوئی مردہ جانور نہ تھا بلکہ کسی چھوٹے بچے کی لاش تھی جو پہلے دبی ہوئی تھی مگر جانوروں نے اسے باہر کھینچ لیاتھا۔ وہاں کوئی شمشان گھاٹ یا قبرستان نہ تھا کہ ایسا سوچا جاسکے کہ کتوں نے کسی مردہ کو قبر سے نکال لیا ہے۔ وہ تو ایک سرکاری زمین تھی۔

وہ کسی آٹھ نوسال کی بچی کی لاش تھی۔ اس نے کئی راہ گیروں کو آواز دی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی لوگ جمع ہوگئے اور اپنا اپنا تبصرہ کرنے لگے۔ پھر لوگ کیسی کیسی باتیں کرنے لگے کوئی کہتا یہ کسی بدکار عورت کی کارستانی ہے، کوئی کہتا کہ کسی نے پیسوں کی خاطر خون کیا ہے، کوئی کہتاکہ کسی نے رنجش نکالی ہوگی، کسی نے کہاکہ پولیس کو بلائو یہ تو پولیس کیس ہے، مگر کوئی اپنے نمبر سے پولیس کو فون کرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ کیوں کرتا، خواہ مخواہ پھنسنے کے لئے۔ آج کل پولیس بھی تو رسی کا سانپ بنادیتی ہے۔ بالآخر یہ جرأت بھی اسی کو کرنی پڑی۔ پولیس آگئی ، لوگوں سے پوچھاکہ کوئی اس بچی کو پہچانتا ہے۔ مگر کوئی نہ بولا۔ لوگوں کی بھیڑ اور پولیس کو دیکھ کر ان جھونپڑیوں کے بھی کچھ لوگ آگئے۔ ان میں سے ایک نے ہمت کرکے کہاکہ میں جانتاہوں یہ رام بابو کی لڑکی کی لاش ہے۔ پولیس افسر نے ایک مرتبہ پھر پوچھا۔ ’’تم جانتے ہو اس کے باپ کو؟‘‘ ہاں ہاں صاحب وہ دیکھو وہ جو پچاس ساٹھ میٹر کی دوری پر جھونپڑی ہے وہ ہے ان کاگھر۔ پولیس فوراً وہاں پہنچ گئی۔ اس جھونپڑی میںایک ضعیف عورت اور اس کا ہم عمر مرد تھا اور اندر ایک جوان لڑکا، مگر شکل صورت سے اپنے باپ سے بھی زیادہ عمردراز لگ رہاتھا، موجود تھا۔ اندر کو دھنسی آنکھیں ، پتلے پتلے ہاتھ پائوں، جسم لاغر بلکہ ہڈیوںکا ڈھانچہ دکھائی دے رہاتھا۔ پولیس کو دیکھ کروہ لوگ سہم گئے۔ پولیس افسر نے پولیسیا انداز میں آوازدی ’’رام بابو کہاں ہے جلدی باہر نکل کرآ‘‘ رام بابو کے چہرے پر خوف وہراس چھاگیا۔پولیس والے نے فوراً سوال کیا۔ ’’کہاں ہے تیری لڑکی؟‘‘ ’’جناب کون سی لڑکی؟‘‘ ’’اچھا قتل کرنے کے بعد لڑکی ہونے کا بھی انکارکررہاہے۔ چل تھانے چل اب تیری زندگی جیل میں ہی گزرے گی۔‘‘ رام بابو کی بیوی اور لڑکا دونوں چلانے لگے۔ انھوںنے کچھ نہیں کیا۔ انھوںنے نہیںمارا اُسے۔ اچھا ابھی تو کہہ رہے تھے کہ کون سی لڑکی؟ اب کہتے ہو انھوںنے نہیں مارا اُسے۔گھبرائے رام بابو نے کہا۔ ’’صاحب! وہ کل خود ہی مرگئی تھی۔ اسپتال سے آنے کے بعد۔‘‘ اس کی گھبراہٹ اور پریشانی سے پولیس کو شک ہواکہ ضرور دال میں کچھ کالا ہے۔

پولیس نے باپ اور بیٹے کو گاڑی میںبٹھایا اور سیدھا تھانے لے گئی اور ان کا چالان کرکے عدالت میں پیش کردیا۔ یہ تو خیر گزری کہ پولیس نے باپ بیٹوںکی صحت دیکھتے ہوئے جرم قبول کرانے کے لئے وہ کچھ نہیںکیا جوعام ملزمین کے ساتھ کرتی ہے۔

یہ بات پوری کالونی میں پھیل گئی۔ اگلے دن کے اخبار کی سرخی بھی بنی۔ عدالت پوری کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ جج نے رام بابو سے پوچھا۔’’ تمہارا کوئی وکیل ہے۔‘‘ رام بابو نے جواب دیا۔ ’’صاحب! روٹی تو وقت پر ملتی نہیں وکیل کہاں سے کریںگے۔‘‘ جج اس کے جملے سن کر خاموش ہوگیا۔ پھر بولا ۔ ’’تم پر الزام ہے کہ تم نے اپنے بیٹے کے ساتھ مل کر اپنی لڑکی کاقتل کیا ہے۔ اپنی صفائی میں کچھ کہناچاہوگے؟ اور تم پر یہ بھی الزام ہے کہ تم نے اپنی بیٹی کے ساتھ غلط فعل انجام دیا ہے۔‘‘ نہیں نہیںجج صاحب یہ سراسر غلط ہے، ہم غریب لوگوں کے پاس عزت کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟ ہم لوگ بھوکا تو رہ سکتے ہیں مگرکسی کی عزت پر آنکھ اٹھاکر نہیں دیکھ سکتے یہ تو ہماری لڑکی تھی اپنی لڑکی جس کو ہم نے بھگوان سے بڑی مِنّت سے مانگاتھا بھلا کوئی باپ ایسا کرسکتا ہے۔ ہاں سچ ہے یہ سچ ہے اور مجھے اس کا دُکھ ہے کہ میری بیٹی بُری موت مری اور میںاس کا انتم سنسکارنہ کرسکا اور پھر وہ اپنے آنسو پونچھ کرخاموش ہوگیا۔ جج صاحب نے سراٹھایا اور باوقار انداز میں کہا۔’’تمہیںجو کچھ کہنا ہے کھل کر کہو، عدالت تمہارے ساتھ انصاف کرے گی۔‘‘ جج صاحب کی بات سے حوصلہ پاکر اس نے کہنا شروع کیا۔ ’’جج صاحب میں ایک باپ ہونے کی حیثیت سے دنیا کا سب سے بدنصیب انسان ہوں۔ میںنے ہمیشہ غربت میں ہی زندگی کی اور غربت کی مار کے سبب ہی میں اپنے بیٹے کو پڑھانہ سکا۔ کیسے پڑھاتا، دو وقت کی روٹی جینے کے لئے زیادہ اہم ہے کاپی کتابیں کسی بھوکے غریب کا پیٹ تو نہیں بھردیتیں۔ کم عمرمیں سخت محنت، غربت اور بھک مری نے اسے ٹی بی کامریض بنادیا ہے۔اب وہ کچھ نہیں کرپاتا ہم نے گھر کے برتن تک بیچ ڈالے اس کے علاج میں مگروہ ٹھیک نہ ہوا اور اب تک وہ نیم مردہ لاش کی طرح گھر ہی پڑا رہتا ہے۔ ہاں میری اس بیٹی کو پڑھنے کا شوق تھا اور وہ خود ہی سرکاری اسکول میں جانے لگی تھی۔میںاکیلا ہی محنت مزدوری کرکے گھر کا خرچ چلاتاتھا۔ ابھی تین مہینے سے مجھے بھی کچھ کام نہیں تھا ابھی بیٹے کی بیماری سے تو نجات نہیں ملی ،مگراچانک پندرہ دن سے میری بیٹی کو بخار نے آگھیرا۔ سرکاری ہسپتال لے گیا اور کہاں لے جاتا پیسے تو تھے نہیں ڈاکٹروں کو دینے کے لئے۔ جج صاحب وہاں کی بھی الگ دنیاہے۔ جہاں ڈاکٹر لوگ شہنشاہ ہیں اور ہم غریب وہاں بھی مجبور۔ ڈاکٹر لوگ اور دوائی لکھ دیتے اور کہتے جائو باہر سے لے آئو۔ پیسے کھانے کو تھے نہیںدوائی کہاں سے لاتا۔ آخری رات میں نے ڈاکٹروں سے لاکھ بنتی کی کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں آپ ہی ہسپتال سے دوائی دے دو۔ ڈاکٹر جھنجلاگیا اور جھڑک کر بولا۔ ’’دوائی لائوگے تو علاج ہوگا ورنہ اٹھاکر لے جائو ۔ اس ادھ مری لاش کو ۔‘‘ میںنے اس کے ہاتھ پیر پکڑے مگر اس پر اثر نہ ہوا۔ میں نے دیکھاکہ میری بیٹی بالکل خاموش پڑی ہے میں گھبراکر فوراً ڈاکٹر کے پاس گیا اس نے چیک کیا اور بولا یہ مرچکی ہے۔ اسے لے جائو اور اس کا سنسکار کردو۔

سنسکار کہاں سے کرتا؟ اس کے لئے بھی تو پیسہ چاہئے۔ کس سے کہتا؟ اورکیوں کہتا؟آس پاس کے لوگ بھی تو میری ہی طرح غریب ہیں۔ آخرکار میں نے اور میرے بیٹے نے مل کر ایک گڈھا کھودا اور اسی طرح اپنی بیٹی کو اس میں رکھ کر مٹی ڈال دی۔ جج صاحب! میری بیٹی مرگئی اور میرا بیٹا آپ کے سامنے ہے۔ اگر آپ مجھے قاتل سمجھتے ہیں تو سولی پر لٹکادیں۔ مگر اس سے پہلے میری بیوی کو زہر دے دیجئے، میرے بیٹے کو موت کی گولی دے دیجئے۔ تاکہ میرے بعد یہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے لئے مجبور نہ ہوں۔‘‘ اور پھر رام بابو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔

جج صاحب رحم دل انسان تھے وہ معاملہ سمجھ گئے۔ انھوںنے نہ صرف رام بابو اور اس کے بیٹے کو باعزت بری کردیا بلکہ اس غریب کے لئے ایک متعینہ رقم کا غریبی بھتہ اور اس کے بیٹے کے دوا علاج اور غذا کے لئے ضلع مجسٹریٹ کو مالی مدد کرنے کا حکم صادر کیا۔

رام بابو پچھلے پانچ مہینوں سے سرکاری دفترکے چکر کاٹ رہاہے مگر ابھی تک کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ ہاں اس دوران اس کے بائیس سالہ ٹی بی کے مریض بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے۔ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146