ظلم کی بنیاد خوشیوں پر نہ رکھا کیجئے
ظلم آخر ظلم ہے یہ بھی تو سوچا کیجئے
ہر فریبی شخص اب لگتا ہے کچھ معصوم سا
فتنہ پرور ہے جہاں، کس پر بھروسہ کیجئے
آپ بچ جائیں گے ایسا معجزہ ممکن نہیں
سنگ شیشے کے مکانوں سے نہ پھینکا کیجئے
ہاں بہر صورت گزر جائیں گی گھڑیاں زیست کی
فکرِ دنیا کیجئے، یا فکرِ عقبیٰ کیجئے
جوئے شیر و دار کے باقی ابھی ہیں مرحلے
پھر کوئی منصور اور فرہاد پیدا کیجئے
سعدؔ ہر سو امن کے دشمن ہیں سرگرم عمل
شہر کی گلیوں میں بھولے سے نہ جایا کیجئے