ایک چہرہ نگاہوں میں ہے آج بھی
ہر قدم اس کی راہوں میں ہے آج بھی
کھینچ لیتی ہے چپکے سے اپنی طرف
ایک لذت گناہوں میں ہے آج بھی
کچھ دیے تو جلے ہیں مگر، روشنی
تیرگی کی پناہوں میں ہے آج بھی
راس آتا نہیں ہے خوشی کا سفر
زندگی غم کی بانہوں میں ہے آج بھی
آسماں لے گا ظلم و ستم کا حساب
کچھ اثر دل کی آہوں میں ہے آج بھی
آستینوں میں ہتھیار رکھتا ہے جو
وہ مرے خیر خواہوں میں ہے آج بھی
گھر سے نکلو نہ خالدؔ، ہر اک آدمی
خوف و دہشت کی بانہوں میں ہے آج بھی