برتو، پرکھو، دیکھو، بھالو
موند کے آنکھیں دل نہ لگالو
کچھ دھوکے دانستہ کھالو
نیکی کرو، دریا میں ڈالو
شہر میں کچھ مفتی رہتے ہیں
حق گویو! دستار سنبھالو
واعظ اور پیامِ محبت
توبہ توبہ، نامِ خدا لو
اندھی محبت، بہری نفرت
دونوں کانٹے دل سے نکالو
چہرے کے دھبوں کی خبر لو
آئینے کو پونچھنے والو
تم ہو مصلحتوں کے پجاری
جان کو کیوں جوکھم میں ڈالو
دھرتی پر آنا ہی پڑے گا
خوش خوابو، رنگین خیالو
بستی بستی آگ لگی ہے
دوڑو دوڑو جنگل والو
جیتے جی فانی ہی رہو گے
مر کے امر ہوجاؤ جیالو
بحثیں اور بھی الجھادیں گی
تم کو اے معصوم سوالو
دشمن کوئی اور نہیں ہے
مجھ کو مرے سائے سے بچالو
رقص کرو کوثرؔ کی دھن پر
دشتِ غزل کے مست غزالو