نفس نفس کا تعاقب جو اک ذرا ٹھہرے
تو اس خسارئہ پیہم کا سلسلہ ٹھہرے
چل آج پار ہی کر جائیں اپنی اپنی حدیں
کہیں تو تیرا ستم میرا حوصلہ ٹھہرے
سنیں گے بعد میں پہلے ذرا یہ جان تو لیں
تری نگاہ میں ہم کتنے باوفا ٹھہرے
تو ساتھ ہو تو مری دھڑکنیں یہ کہتی ہیں
سفر تمام نہ ہو اور نہ راستہ ٹھہرے
جو خود کو دیکھنا چاہے تو میری آنکھ سے دیکھ
کہاں مجال ترے آگے آئینہ ٹھہرے
ذرا سا کھول تو دے شہر دل کا دروازہ
کہ تیرے قدموں پہ چاہت کا قافلہ ٹھہرے
سمجھ سکو تو ہے رونا بھی ایک طرزِ کلام
ہلاؤں لب اگر اشکوں کا سلسلہ ٹھہرے
اب اس جبینِ شکستہ کی قدر کیا ہوگی؟
کہ تم تو سارے زمانے کے دیوتا ٹھہرے
خدایا کیسی سجائی ہے تو نے بزمِ جہاں
جو اس سے دل کو لگائے وہ بے وفا ٹھہرے
ابھی دلوں میں محبت کی جوت باقی ہے
چراغ پھر سے جلیں گے ذرا ہوا ٹھہرے
چمن میں پھول کھلے ہیں بہار آئی ہے
شبِ فراق سے کہہ دو ابھی ذرا ٹھہرے
وہ مجھ کو دیکھ کے ایسے ٹھٹھک گیا خالدؔ
کہ جیسے ہونٹوں تک آکر کوئی صدا ٹھہرے