بطرازِ دلربائی، بطریقِ ساحرانہ
جو چلے تھے وار کرنے وہی بن گئے نشانہ
مری بزمِ آرزو میں، مرے شوقِ رنگ و بو میں
کوئی مجھ سے کہہ رہا ہے ترے پیار کا فسانہ
بزبانِ بے زبانی غمِ دل کی ترجمانی
کہیں ہو نہ جائے رسوا یہ ادائے محرمانہ
کبھی چاند چھپ گیا ہے تو چمک اٹھا ہے بادل
ترا ہجر عارضی ہے، ترا وصل جاودانہ
سرِ شاخِ گل نمایاں کبھی زیرِ خاک جنباں
یہ خزاں کا ہے دفینہ کہ بہار کا خزانہ!
مجھے جب بھی دھیان آیا، تجھے اپنے پاس پایا
کہ نہیں ہے تجھ سے خالی کوئی جا، کوئی زمانہ
یہ بجا کہ یاد تیری غمِ تازہ لے کے آئی
مرے اشک و آہ بھی ہیں تری یاد کا بہانہ
کبھی خواب میں بھی تو نے مجھے آنکھ اٹھا کے دیکھا
تو حریمِ آشنائی میں چھڑا نیا ترانہ
میں تری وفا کے صدقے، مجھے خوف ہے تو یہ ہے
کوئی چال چل نہ جائے کہ ہے بے وفا زمانہ