وہ کون ہے جو مسلسل بلائے جاتا ہے
دلِ حزیں مجھے پیچھے ہٹائے جاتا ہے
کبھی دیا تھا جسے میں نے پھول کا تحفہ
مرے خلاف وہ پتھر اٹھائے جاتا ہے
چھپی رہیں گی بھلا کس طرح میری باتیں
وہ ہر کسی سے تو رشتہ بڑھائے جاتا ہے
ادا نرالی ہے، میرے نگر کے قاتل کی
وہ قتل کرکے بھی کاندھا لگائے جاتا ہے
ضمیرؔ اب بھی محبت کے لوگ نہیں بھوکے
عظیم ہے جو یہ دولت لٹائے جاتا ہے