دیارِ غیر میں کیسے تجھے صدا دیتے
تو مِل بھی جاتا تو آخر تجھے گنوا دیتے
ہمیں یہ زعم رہا اب کہ وہ پکاریں گے
انہیں یہ ضد تھی کہ ہر بار ہم صدا دیتے
تمہیں بھلانا ہی اول تو دسترس میں نہیں
جو اختیار میں ہوتا تو کیا بھلا دیتے
تمہاری یاد نے کوئی جواب ہی نہ دیا
میرے خیال کے آنسو رہے صدا دیتے
سماعتوں کو میں تا عمر کوستا ہوں وصی
وہ کچھ نہ کہتے مگر ہونٹ تو ہلا دیتے