یہ سچ نہیں کہ آہ میں کوئی اثر نہیں
بدلہ ملے گا ظلم کا، کوئی مفر نہیں
باتیں بڑی لذیذ ہیں لہجہ بھی پرکشش
پھر کیا ہوا کہ لوگوں پہ کوئی اثر نہیں
ہر فرد میری قوم کا گم گشتہ راہ ہے
رستہ بتائے کون، کوئی بھی خضر نہیں
ہم نے لہو کا آخری قطرہ بہادیا
ایسا مزاج یار ہے، کوئی ثمر نہیں
ننھے سے اک دئیے پہ اندھیروں کی یورشیں
کیا اس شب سیاہ کی کوئی سحر نہیں
غربت میں اس طرح سے گزرتے ہیں ماہ و سال
تپتا ہوا جہاں ہے کوئی شجر نہیں