نہ ہوگی یہ زمیں تیری نہ ہوگا آسماں تیرا
تماشہ دور سے دیکھیں گے یہ دونوں جہاں تیرا
بنا وہ آگ کہ جس سے بجلیاں اوپر ہی رہ جائیں
نظر میں بجلیوں کے آچکا ہے آشیاں تیرا
غلاموں کو غلامی سے چھڑا یا تھا کبھی تو نے
مگر اب خود غلامی میں ہے جسم ناتواں تیرا
ترے دشمن نے تیرا نام دہشت گرد رکھا ہے
بنا ہے اس کے دل کا داغ سجدے کا نشاں تیرا
مقید تو جہاں ہوگا وہیں اسلام پھیلے گا
بہت مہنگا پڑے گا ظالموں کو امتحاں تیرا
جنوںؔ نزدیک ہے وہ دن شہادت رنگ لائے گی
وہیں سے غازی اٹھیں گے گرے گا خوں جہاں تیرا