اہل دانش نہ ہنر مند وہاں تک پہنچے
ہم سے دیوانے محبت میں جہاں تک پہنچے
کتنے مسرور ہوئے باب جناں تک پہنچے
میرے احساس کی خوش بو تو وہاں تک پہنچے
نقد و تنقیح ضروری ہے ہر اک پہلو سے
اس سے پہلے کہ کوئی بات زباں تک پہنچے
حوصلے والے پہنچ بھی گئے منزل پہ مگر
بے عمل لوگ فقط وہم و گماں تک پہنچے
میرے نزدیک حقیقت میں وہی ہے انساں
پرسشِ حال کو جو غم زدگاں تک پہنچے
میں کسی خطہ و قریہ کا نہیں ہوں پابند
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے