نصب تھا رستے میں آئینہ عجب
اپنے شانوں پر لگا چہرہ عجب
ایک تو حائل ہوئی میری اَنا
اور کچھ تیرا بھی تھا لہجہ عجب
ڈرگئے ہم اپنی ہی پرچھائیں سے
کھا گئے خود ہی سے کیا دھوکا عجب
ڈوبتے کردار سورج بن گئے
چھڑ گیا تھا رات اِک قصہ عجب
جانے کب اگلا قدم دلدل میں ہو
دل میں رہتا ہے مرنے خدشہ عجب
تجربوں پر جب بھی سوچا رئیسؔ
کھنچ گیا نظروں میں اِک خاکہ عجب