رکھ موت کی لذت دمِ شمشیر سے آگے
رقصاں ہو اجل دستِ زرہ گیر کے آگے
آئینہ ادراک پہ سب عکس پریشاں
خاموش جنوں حسن کی تقریر کے آگے
تاثیرِ غلامی، کہ غلاموں کی نگاہیں
اٹھتی ہی نہیں حلقۂ زنجیر کے آگے
دربارِ معلی کے ابوالفضل، یہ فیضی
سب کاسہ بکف اکبرِ تصویر کے آگے
اس شیخ کی دنیا کو ضرورت ہے بہت آج
’گردن نہ جھکے جس کی جہانگیر کے آگے‘
دل ہیبتِ اغیار سے خالی ہو تو بزمیؔ
سب ہیچ تیرے نعرئہ تکبیر کے آگے