اب نہیں خود پہ اختیار مجھے
اب کہیں سے نہ تو پکار مجھے
تم نے گنتی سے کیا نکال دیا
کوئی کرتا نہیں شمار مجھے
منحصر یہ بھی دوسروں پر ہے
کس پہ کرنا ہے انحصار مجھے
سامنے ہے اجل بھی اور وہ بھی
اور کس کا ہے انتظار مجھے
ذکر کس کا ہے میری غزلوں میں
کون کرتا ہے باوقار مجھے
کیا کبھی لوٹ کر نہ آ ؤ گے؟
دیکھتے کیوں ہو بار بار مجھے
ہو برا عرضِ آ رزو تیرا
کردیا تونے شرمسار مجھے