منت گزار دیدہ گریاں نہ تھا کبھی
یہ دل مریض جلوہ ء جاناں نہ تھا کبھی
اس کو بھی تھا ہجوم تجلی سے احتیاط
میں بھی حریص لطف چراغاں نہ تھا کبھی
چپکے سے آج وہ بھی تہ خاک سوگئے
جن کو خیال گور غریباں نہ تھا کبھی
جو معتبر ہوا ہے نگاہ جمال میں
محو طواف شمع فروزاں نہ تھا کبھی
اے بے چراغ سونی حویلی کے باسیو !
کیا تم کو خوف گردش دوراں نہ تھاکبھی
کیوں کم ہوا ہے کوچۂ قاتل میں اعتبار
کیا میں اسیر گیسوئے خوباں نہ تھا کبھی
نور حرا کے فیض سے پہلے تو اے حیات
عرفان ذات کا تجھے عرفاں نہ تھا کبھی
سمٹا ہوا ہوں شرم سے محشرکی بھیڑمیں
دل میں خیال دفتر عصیاں نہ تھا کبھی
رکھی مرے ضمیر نےآب انا کی لاج
میں زیر بار خواجہ و سلطاں نہ تھا کبھی
بزمیؔ تمہارے دور کی ملت فروشیاں
اتنا تو بے ضمیر مسلماں نہ تھا کبھی
مزید غزلیں!
حال ہمارا کیا پوچھو ہو آگ دبی اکساؤ ہو
رکھ موت کی لذت دمِ شمشیر سے آگے
جب ہوا عرفاں تو غم آرامِ جاں بنتا گیا