مرکز سے کہیں دور کسی راہ گزر میں
پاؤگے، جو ملتا نہیں بھولے سے بھی گھر میں
وہ رمز طلب جس کی ہے محرابِ حرم میں
دل میں ہے تو کیا ڈھونڈھئے دیوار میں در میں
وہ بات پرانی ہوئی کب کے ہیں وہ قصے
رہتا تھا شب و روز جو سودا کوئی سر میں
کیا شورشِ دوراں کے مقابل نہیں رہتے
ڈرتے نہیں موجوں سے جو پلتے ہیں بھنور میں
دم لینے کو ٹھہرے ہیں تو کیا حوصلہ چھوٹا؟
باقی ہے ابھی کاوشِ پرواز تو پر میں
اب زادِ سفر کیا ہے بجز آبلہ پائی
منزل تو خدا جانے مگر ہم ہیں سفر میں
حسرت کوئی باقی نہیں ٹوٹے ہوئے دل میں
رہتا ہے کہیں کوئی بھی ویران کھنڈر میں
تب وقت کوئی اور تھا شامیں تھیں سحر گوں
اب شب میں کوئی لطف ہے رضواںؔ نہ سحر میں