درد کو اک نئی تجسیم میں لائے ہوئے لوگ
دیکھ! ہم ہیں غمِ دوراں کے ستائے ہوئے لوگ
پہلے پانی کی طرح ہوتے تھے دنیا والے
اور پھر وقت کی تبدیلی سے “چائے” ہوئے لوگ
موت کی دھن پہ تھرکتے ہیں حقیقت کے قدم
زندگی جیتے ہیں بس خواب دکھائے ہوئے لوگ
دیکھ پنکھے سے لٹکتی ہوئی لاشوں کی چمک
یہ ہیں اکسیر کی آتش میں جلائے ہوئے لوگ
ہائے کس شدت محرومی کی زد میں ہوں گے
خالی کندھوں کا گراں بوجھ اٹھائے ہوئے لوگ
حشر کے روز سنائیں گے فسانے کیا کیا
اپنی تمہید میں اک عمر بِتائے ہوئے لوگ
اپنی وحشت سے قیامت یہی ڈھائیں گے سفیر
باخبر نیند سے بےوقت اٹھائے ہوئے لوگ