حال ہمارا کیا پوچھو ہو آگ دبی اکساؤ ہو
شعلے کب کے راکھ ہوئے اب خاک انھیں لہکاؤ ہو
پیڑ پہ جب پھل پات نہیں تو پت جھڑ کیا لے جائے گا
خرمن کب کا خاک ہوا بیکار ہمیں دھڑکاؤ ہو
کوئی ڈگر ہموار ملے تو اس کے سادھن کر ڈالو
ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی پر جان کے دھوکا کھاؤ ہو
رشتے ناتے گانٹھ گرہ سے روز الجھتے جاتے ہیں
الجھن کی ہے ریت پرانی اس کو کیا سلجھاؤ ہو
کیسی کوئی چاہت واہت، بہکی بہکی باتیں ہیں
اپنی اپنی راہ لگو کیا سنکے کو سنکاؤ ہو
رضواںؔ تم کیا ناداں ہو کچھ کہنی اپنی کہہ ڈالو
دنیا کی جب آنکھ کھلے ہے تم ہی کیوں سوجاؤ ہو