ترے ہجر نے عطا کی، یہ عجیب بے قراری
نہ سکت ہے ضبط غم کی، نہ مجال اشک باری
مرے سومنات دل پر صف غزنوی سے بڑھ کر
تری شبنمی ادائیں، ترا طرزِ غم گساری
میں کہاں ہوں اور کیا ہوں، تو کہاں ہے اور کیا ہے
اس جستجو میں گزری، کبھی رات ساری ساری
یہ ستیزہ گاہ عالم، یہ حریف زلف برہم
نہ جنوں فتنہ ساماں، نہ خرد کی ہوشیاری
’’تو مری نظر میں کافر، میں تری نظر میں کافر‘‘
میں اسیر زلف جاناں، تو حریص شہریاری
مری خشک کشت دل پر، ترے لفظ برق مضطر
کہ دھواں دھدھک نہ جائے، تری تہمتوں پہ واری
یہ مجاوران کعبہ انہیں کیا ہوا خدایا
ترے دوستوں سے نفرت، ترے دشمنوں سے یاری
کوئی رستمی سے کہہ دے، کوئی مرحبی سے کہہ دے
میں غلام مصطفی ہوں، مرا شوق جان نثاری
ہے یہاں مال گلشن، یہ جلے جلے نشیمن
یہ گھٹی گھٹی فضائیں، یہ گلوں کی آہ و زاری
اے غرور بندہ پرور، تجھے ہو جو خوف محشر
تو سریر سلطنت بھی ہے کلاہ خارداری
رہِ زندگی ہیں بزمی نہ متاع دل کی بازی
کبھی رہ زنوں سے یاری، کبھی رہبروں سے یاری