نظام گلشن بدل گیا ہے کہاں سے فصل بہار آئے
شراب ایسی نہیں ہے باقی کہ نشہ آئے خمار آئے
ہوائیں ایسی ہیں سم گزیدہ کہ نفرتوں کو بڑھا رہی ہیں
وہی ہے قاتل وہی ہے منصف جو بر سر اقتدار آے
ہمیں بزرگوں نے ہے بتایا کہ کامرانی کا راز کیا ہے
یہاں وہی سرفراز ہوگا جو سر کی بازی بھی ہار آئے
پرانے بادہ کشوں کو دیکھو ہوے ہیں رخصت کچھ اس ادا سے
ابد کی منزل کے اس سفر میں نہ سنگ آئے، نہ خار آئے
وفا کا دامن نہ ہم نے چھوڑا ہزار اس نے جفائیں کی ہیں
دل و نظر میں بسا ہوا ہے بھلا ہمیں کیوں نہ پیار آئے
ہمارے گلشن میں چل رہا ہے عجیب جھونکا ہوا کا خالدؔ
تمام پتے جھلس گئے ہیں کہاں سے ان پر نکھار آئے