پوچھتے ہیں وہ آنکھ کیوں نم ہے
کیسے کہہ دوں کہ آب کا غم ہے
جب سے رخصت ہوا ہے وہ گھر سے
روشنی ہر دیے کی مدہم ہے
وہ چمکتا ہے میری آنکھوں میں
جو زمانے کو دیکھتا کم ہے
حل کو گزرے گزر گئیں صدیاں
ان کی باتوں میں آج بھی دم ہے
مجھ سے ناراض ہے میرا سایہ
کیسی دشواریوں کا عالم ہے
سچ کو سولی چڑھا دیا روشن
شہر بھر میں عجیب عالم ہے