اس شہرِ نگاراں کی اتنی سی کہانی ہے
صحرا میں سمندر ہے اور آگ میں پانی ہے
دنیا کی حقیقت کیا اور اِس کی ضرورت کیا
ادانیٰ سی تمنا میں کیا عمر کھپانی ہے
جو فرض تمہارا ہے اس کو تو ادا کردو
جب موت کو آنا ہے اس وقت ہی آنی ہے
رستے کا تعین گو انجام کا گویا ہے
جو چیز مقدر ہے وہ چیز ہی پانی ہے
جس شے کی تمنائی محبوب کی آنکھیں ہیں
وہ چیز بھی مہنگی ہے اور دور سے لانی ہے
مشکل ہے بہت مشکل دنیا کو سمجھ پانا
چھووؤں تو بھکارن سی دیکھوں تو وہ رانی ہے
ہم جس کی محبت میں مرتے بھی ہیں جیتے بھی
بتلائے کوئی ہم کو کیا اس کا بھی ثانی ہے
ایوانِ محبت میں ہر ایک کا حصہ ہے
شبنم کی بدولت ہی کلیوں کی جوانی ہے