رات دن فرض نبھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
آئینے عکس دکھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
بن تھکے جن کے لیے دوڑا میں سارا جیون
وہ میرے پھیر دباتے ہوئے تھک جاتے ہیں
دل کی آتش پہ توجہ نہیں دے پاتے ہم
پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
زندگی میں کہیں ایسے بھی ملے ہیں کچھ لوگ
قرض لمحوں کا چکاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
روک دیتے ہیں وہ اک روز سفر کو دل کے
غم جو دھڑکن کو بڑھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
کوئی رشتہ ہی نہیں آتا غریبوں کے یہاں
بوجھ بیٹی کا اٹھاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
عیب پوچھو تو زبان ہلتی نہیں ایک کی بھی
خوبیاں اپنی گناتے ہوئے تھک جاتے ہیں
دھیان سے سنتی ہے جو بزم تری سرگوشی
ہم وہیں شور مچاتے ہوئے تھک جاتے ہیں
کرنے لگتے ہیں پھر آرام کسی نیزے پر
اہل حق، حق کی اشاعت میں جو تھک جاتے ہیں
وہ تو تھکتا ہی نہیں آگ پہ جلتا ہے نبیل
تالیاں لوگ بجاتے ہوئے تھک جاتے ہیں