غزل

عزیز نبیل

صحرا کی سمت ایک سمندر اچھال کر

میں آرہا ہوں پیاس کو حیرت میں ڈال کر

ٹھہرا ہوا ہوں، ہونے نہ ہونے کے درمیاں

اپنے بدن کی قید سے خود کو نکال کر

ایسا نہ ہو کہ تو بھی بکھر جائے میرے ساتھ

مجھ کو مرے وجود میں فوراً بحال کر

آؤں گا میں لیے ہوئے خوابوں کی نرم چھاؤں

رکھنا تم اپنی آنکھ کی حیرت سنبھال کر

کشکولِ خامشی میں کوئی شور بھر گیا

سکّوں کی طرح لفظ ہوا میں اچھال کر

آؤ ذرا سی دیر سہی کھل کے مسکرائیں

دنیا کے مسئلوں کو پسِ پشت ڈال کر

پانی نہیں یہ بہتے ہوئے عکس ہیں نبیل

دریا میں پاؤں رکھنا ذرا دیکھ بھال کر

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146