صحرا کی سمت ایک سمندر اچھال کر
میں آرہا ہوں پیاس کو حیرت میں ڈال کر
ٹھہرا ہوا ہوں، ہونے نہ ہونے کے درمیاں
اپنے بدن کی قید سے خود کو نکال کر
ایسا نہ ہو کہ تو بھی بکھر جائے میرے ساتھ
مجھ کو مرے وجود میں فوراً بحال کر
آؤں گا میں لیے ہوئے خوابوں کی نرم چھاؤں
رکھنا تم اپنی آنکھ کی حیرت سنبھال کر
کشکولِ خامشی میں کوئی شور بھر گیا
سکّوں کی طرح لفظ ہوا میں اچھال کر
آؤ ذرا سی دیر سہی کھل کے مسکرائیں
دنیا کے مسئلوں کو پسِ پشت ڈال کر
پانی نہیں یہ بہتے ہوئے عکس ہیں نبیل
دریا میں پاؤں رکھنا ذرا دیکھ بھال کر