وہ مہرباں ہو تو صحرا بھی گلستاں ہو جائیں
اگر خفا ہو تو برہم ستارگاں ہو جائیں
ہوائیں شوق سمندر کی مہرباں ہو جائیں
طلب سفینہ ہو، ارمان بادباں ہو جائیں
بپاسِ دوستی اتنے بھی اب نہ دو الزام
کہ ہم خود اپنی طرف سے بھی بدگماں ہو جائیں
قلندروں کے لیے شہر کیا ہے، صحرا کیا
غرض تو ٹھور ٹھکانوں سے ہے، جہاں ہو جائیں
تمھاری یاد کرے ایسے دل میں گھر اپنا
ہم اپنے گھر میں بتدریج میہماں ہو جائیں
تری رضا رہی شامل تو اس مسافت میں
سلگتے دشت کی دھوپیں بھی سائباں ہو جائیں
جو ہو یقین تو بس اک چراغ کافی ہے
نہ ہو تو لاکھ مہ و مہر رائیگاں ہو جائیں
چلو شگاف بنائیں فصیلِ وقت میں ہم
عجب نہیں کہ بہم سارے رفتگاں ہو جائیں
جو صید دامِ جنوں تھے وہ پا گئے منزل
اسیر دانش و بینش نہ بے نشاں ہو جائیں
فضول ٹھہرے تگ و تازِ عمر بھی ساری
ہتھیلیوں کی لکیریں بھی رائیگاں ہو جائیں
وفا کی جنس ہیں عرفان ہم ابھی ارزاں
خرید لو کہیں ایسا نہ ہو گراں ہو جائیں