صاف عیاں ہے بات یہ ان کے تیور سے
بول لگے ہیں ان کو میرے پتھر سے
بہت ہوا اب ہٹ جاؤ تم منظر سے
’’پھول کی پتی بات کرے ہے خنجر سے‘‘
بزم سے ان کی ایسے کچھ ہم دور ہوئے
پار گئے ہوں جیسے سات سمندر سے
ایسی زباں سے بات کرو ہو لوگوں سے؟
جیسے کوئی زخم کریدے نشتر سے
ایک مسافر بیٹھا تھا دیوار تلے
لگتا تھا وہ ٹوٹ گیا ہے اندر سے
اس سے بڑھ کر اور جہالت کیا ہوگی
کوئی کہے انسان بنا ہے بندر سے
شیش محل میں ہم تو پیارے سوتے ہیں
پانی ٹپکے کاظمؔ تیرے چھپر سے