وہ جو صاحب نظر نہیں ہوتے
زیست سے باخبر نہیں ہوتے
یہ دھندلکے ہیں اول شب کے
ی نشان سحر نہیں ہوتے
زیر افلاک سانس لیتے ہیں
ہم غریبوں کے گھر نہیں ہوتے
ان سے ملنا تو اتفاقا تھا
حادثے دیکھ کر نہیں ہوتے
دشت غربت میں، میں اکیلا ہوں
لوگ کیوں ہم سفر نہیں ہوتے
ان کی دستار پر نہ جا ماجد
کچ کلاہوں کے سر نہیں ہوتے