اسیر اپنا بنا، اشتیاق حور میں رکھ
مرے شعور مجھے وادیِ شعور میں رکھ
سمجھ کے دیں گے نہیں سامری گزیدہ لوگ
ہزار بار بھلے سائبان طور میں رکھ
چلی جو بات تو برگِ بہشت تک پہنچی
خروج آدم خاکی مرے قصور میں رکھ
چراغ شوق، امید سحر، ثبوت وفا
یہ آیتیں ہیں، انہیں عشق کے زیور میں رکھ
نہ مانگ شوکت فرعونیت سے امن و امان
کلیم اپنی نظر کو اسیر طور میں رکھ
پگھل نہ جاؤں کہیں فقر کی تمازت سے
تری پناہ میں مولا، ترے حضور میں رکھ
نظام جبر کی تطہیر چاہنے والے
شہادتوں کی تڑپ سینۂ صبور میں رکھ
ہزار سر بہ زمانے کی تہمتیں بزمی
دل طہور میں رکھ یا نگاہ نور میں رکھ